عوام کا روزہ 

وہ کہتے ہیں رمضان کا مہینہ آرہا ہے روزہ آنے والا ہے رمضا ن اور روزہ کے ساتھ مہنگائی کا نیا ریلا آئے گا اور سب کچھ بہا لے جا ئے گا۔ کل پیاز کا سودا گر کہہ رہا تھا چچا مہینہ بھر کے لئے لے لو رمضا ن کے آتے ہی نر خ دگنے ہو جائینگے، دودھ والا کہہ رہا تھا رمضا ن میں اس نر خ پر دودھ نہیں ملے گا، ٹما ٹر والا کہہ رہا تھا روزے آے والے ہیں ٹما ٹر مہنگے ہو جا ئینگے اور یہ ہر سال ہوتا آیا ہے، رمضان المبارک کی آمد ہمارے بازار میں نر خوں کے اتار چڑھاؤ کا سبب بنتی ہے اور لو گوں کی یہ رائے غلط نہیں در اصل رمضا ن اور روزوں کے ساتھ ہمارا بر تاؤ بہت نرا لا ہے روزے کا مطلب ہے کم کھا نا اور کم کھانے کی عادت ڈالنا۔رمضا ن کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ایک ما ہ کی ریا ضت کے بعد سال بھر کے لئے صبر وتحمل کی عادت ڈالے، ہمارا سما جی، معا شرتی اور نفسیا تی رویہ اس کے بر عکس ہے ہم سال کے گیا
 رہ مہینوں کے برابر خو راک رمضا ن کے ایک مہینے میں کھا تے ہیں بازار میں ڈیمانڈ یا طلب کا گراف اوپر جا تا ہے تو سپلا ئی یا رسد کا گراف نیچے آجا تا ہے اور مہنگا ئی آسمان کو چھو لیتی ہے حا لا نکہ قاعدہ، قانون اور اسلا می تعلیمات کی رو سے رمضا ن میں اشیائے خوراک کی طلب میں کمی آنی چا ہئے۔ طلب میں کمی کے ساتھ رسد میں اضا فہ ہو گا، رسد میں اضا فہ ہوا تو نر خوں میں نما یا ں کمی دیکھنے میں آئیگی پھر ہماری حکومت کو پیکیج پیکیج کہہ کر دل بہلا نے کی ضرورت نہیں پڑیگی، پر چون فروشوں اور ہتھ ریڑھی والوں پر ہر روز چھا پہ ما رنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔عوام کو ہر روز مہنگائی مہنگا ئی کا شور مچا نے سے نجا ت مل جا ئیگی سال بھر ہم لو گ جو کچھ نہیں کھا تے رمضا ن میں اس کو لا زم قرار دیتے ہیں۔ ہم سال کے گیا رہ مہینے پکوڑے، پراٹھے، چٹنی، اچار، سوفٹ ڈرنک اور سمو سے کے بغیر ٹھیک گزار دیتے ہیں رمضا ن کے آتے ہی ان چیزوں کو لا زم قرار دیتے ہیں حالا نکہ ایسا کرنا لازمی نہیں۔ ہم سال کے گیا رہ مہینے گوشت کے بغیر آسا نی سے گزار دیتے ہیں رمضا ن کا مہینہ آتے ہی گوشت کو لا زم گردانتے ہیں حا لا نکہ روزے کا گوشت خوری سے دور کا بھی تعلق نہیں  یہی حال مر غی اور انڈوں کا ہے سال بھر مر غی کا گوشت میسر نہ آئے تو ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا رمضا ن میں 
 چکن کھا نے کو جی کر تا ہے، انڈے کھا نے کو جی کر تا ہے سال گیارہ مہینے ہم پھل کے بغیر گزارہ کر لیتے ہیں لیکن رمضا ن کے آتے ہی پھل خرید نا لا زم ہو جا تا ہے، سال کے گیا رہ مہینے ہمارے دستر خوان پر سادہ کھا نا آجا تا ہے ایک سالن کے ساتھ گندم یا جو ار کی روٹی، جس روز چاول پکے اس روز سالن اور روٹی کی چھٹی ہو جا تی ہے مگر رمضا ن کے آتے ہی ہمارا دستر خوان چھ سات اقسام کے کھا نوں سے بھر جا تا ہے گویاہمارے لئے رمضا ن اور روزہ شکم پروری اور شکم سیری کا مہینہ ہے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کا نہیں ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے”مہنگائی ما فیا“ کند چھری لیکر آجا تا ہے اور ہمارا خون پی جا تا ہے۔، بد قسمتی سے یہ لوگ کسی قاعدے قانون کو خاطر میں لانے کے روادار نہیں۔ ہم اگر اضافی اخراجات کو تر ک کر ینگے سادہ سحری اور سادہ افطار کرینگے تو ”بازاری ما فیا“ کو نر خ بڑھا نے کا مو قع نہیں ملے گا۔