مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے 

چند دن قبل سینٹ آف پاکستان نے اپنے قیام کی گولڈن جوبلی منائی اور اس ضمن میں سینٹ کے ہال میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں سینٹ کے اراکین نے اپنے پیش رو اراکین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس میں کوئی دو آ راہ نہیں ہیں کہ اب تک اس ملک نے جو بھی سینیٹر دیکھے ہیں ان میں قابلیت اور ملکی قوانین پر عبور کے لحاظ سے غلام اسحاق خان کے قدو قامت  سے کوئی انکار نہیں۔یوں تو کئی مشہور سیاسی  شخصیات نے بطور سینیٹربھی کام کیا ہے اور بطور چیئرمین سینٹ بھی، پر ان سب میں بطور سینیٹر اور سینیٹ چیئرمین غلام اسحاق خان کا رول مثالی تھا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ حد درجہ دیانت دار تھے اور ملکی قوانین پر من و عن عمل کیا کرتے تھے، وہ سیاسی مصلحتوں کو آ ئین پاکستان پر عملداری کے راستے میں آنے نہ دیتے تھے وہ نہایت راست گو انسان  تھے۔یہ اس ملک کی اور اس میں بسنے والے لوگوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی سینیٹ میں ایک شخص بھی بیٹھا جو انمول تھا،سینیٹ میں آنے سے پیشتر وہ اس ملک کے
 ہر اہم اور با اختیار کلیدی عہدے پر فائز رہے وہ اگر چاہتے تو بعض دوسرے لوگوں کی طرح کی روش اختیار کرسکتے تھے پر جب وہ ریٹائرہوئے تو ان کا ذاتی اثاثہ وہ چند کنال زمین تھی جو ان کو اپنے والد کی طرف سے وراثت میں ملی تھی۔ اس قسم کی دیانت داری کی مثال آپ کو اس ملک  میں کم ہی ملیں گی۔اگر سینیٹ کی گولڈن جوبلی تقریبات میں مقرر ین ان کے کردار کی مندرجہ بالا خصوصیات کو اُجاگر کرتے تو کیا ہی بہتر ہوتا۔ سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری کا یہ بیان کہ چین سے2003 میں اٹیمی تعاون کے معاہدے پر اتفاق ہو گیا تھا پر امریکہ نے انکار کر دیا تھا اس حقیقت کا غماز کہ چین اور امریکہ کے حکمرانوں کی عالمی امن قائم رکھنے کی پالیسیوں میں کتنا فرق ہے۔ چین کی روز اول سے یہ پالیسی رہی کہ دنیا میں اپنا اثر ورسوخ اپنی معاشی پالیسیوں سے قائم کیا جائے جبکہ امریکہ کی پالیسی کا محور جارحانہ خارجہ پالیسی ہے۔ادھر تازہ ترین خبروں کے مطابق لداخ میں سرحدی مقامات پر بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اس بات کا بین ثبوت موجودہے کہ امریکہ لداخ میں  چین کے خلاف بھارت کی ہلہ شیری بالکل اسی انداز میں کر رہا ہے کہ جس طرح وہ تائیوان کی چین کے خلاف کر رہا ہے۔اب جب بات ہو رہی ہے امریکہ اور چین کے کردار کی تو شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان بھی چپقلش اور تنازعے کی بنیاد امریکہ ہے۔شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس نے جمعرات کو بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جو اس ہفتے شروع ہونے والی امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجی مشقوں کے ردعمل کے طور پر
 تھا۔سرکاری میڈیا نے تصاویر جاری کیں جن میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان، اپنی بیٹی کے ساتھ، لانچنگ کی کاروائی کو دیکھ رہے ہیں۔ اسے ہاسانگ17بیلسٹک میزائل کا نا م دیا گیا ہے۔سرکاری کورین سینٹرل نیوز ایجنسی کے مطابق شمالی کوریا کا کہنا ہے امریکہ اورجنوبی کوریا کے  حکمرانوں کی بڑے پیمانے پر اشتعال انگیزاورجارحانہ جنگی مشقوں کے جواب میں لانچنگ ڈرل کی گئی ہے۔شمالی کوریا کے سرکاری نام کا مخفف استعمال کرتے ہوئے کم نے کہا کہ ہم انہیں اپنی مرضی سے یہ احساس دلائیں گے کہ DPRK کے خلاف ان کی فوجی مشقیں جتنی دیر تک مزید پھیلیں گی، ان کے لیے ناقابل تلافی خطرہ اتنا ہی سنگین ہوتا جائیگا۔اس وقت امریکہ اورجنوبی کوریا کی 11 روزہ بڑی مشترکہ فوجی مشقیں جاری ہیں، جس میں اتحادیوں کی پانچ سالوں میں سب سے بڑی فیلڈ مشقیں شامل ہیں۔ شمالی کوریا کی جانب سے ریکارڈ تعداد میں میزائل داغے جانے کے بعد گزشتہ سال سے ایسی مشقوں میں تیزی آئی ہے۔