آئی سی سی یعنی بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف بچوں کی غیر قانونی منتقلی اور ملک بدری کے جنگی جرم میں ملوث ہونے کے شبہے میں وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے ہیں۔روس، جو آئی سی سی کے کنونشن کا فریق نہیں ہے، نے اس اقدام کو لایعنی، غیر ضروری اور باطل قرار دیا ہے اور ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخارووا نے کہا ہے کہ روس کیلئے آئی سی سی کا فیصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا کیوں کہ روس آئی سی سی کے قانون کا فریق نہیں ہے اور نہ اس نے روم کے قانون کی توثیق کی ہے اس لئے اس کے تحت اس کی کوئی ذمہ داریاں نہیں بنتیں۔یاد رہے روس نے 2000 میں آئی سی سی قانون پر دستخط کیے لیکن آئی سی سی کا رکن بننے کی توثیق نہیں کی اور آخر کار 2016 میں اپنا دستخط ہی واپس لے لیا۔وارنٹ کے مطابق پیوٹن اور روسی کی انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ یوکرین کے مقبوضہ علاقوں سے یوکرینی افراد، خصوصا ًبچوں، کو غیر قانونی طور پر روسی فیڈریشن لانے کے جنگی جرم میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں اس لیے اگر وہ آئی سی سی کے کسی رکن ملک کے دورے پر آئیں تو انہیں گرفتار کرکے آئی سی سی کے سامنے پیش کیا جائے۔یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل اینڈری کوسٹن نے آئی سی سی کے اعلان کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے دنیا کو اشارہ ملا ہے کہ روسی حکومت مجرم ہے اور اس کی قیادت اور حواریوں کو جوابدہ بنایا جائے گا۔ یہ یوکرین اور بین الاقوامی قانون کے پورے نظام کے لئے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔آئی سی سی کا یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد اس مسئلے میں لیا جانے والا پہلا قدم ہے۔ آئی سی سی، جس کے پاس اپنے وارنٹ نافذ کرنے کی کوئی طاقت یا پولیس نہیں ہے، نے صدر پیوٹن کے ساتھ روس کی بچوں کے حقوق کے لئے کمشنر ماریا بیلووا کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیا ہے۔ روس بارہا ان الزامات کی تردید کر چکا ہے کہ اس کی افواج نے گزشتہ سال فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد ان مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔مگر آئی سی سی کے مطابق اس کے پاس یہ یقین کرنے کی معقول بنیادیں ہیں کہ پیوٹن ان جرائم کیلئے براہ راست انفرادی طور پر یا دوسروں کے ساتھ مل کر اور یا دوسروں کے ذریعے کروانے کا ذمہ دار ہے۔اس کے علاہ وہ سویلین اور فوجی ماتحتوں پر مناسب کنٹرول کرنے میں ناکام رہے جنہوں نے کاروائیاں کیں یا ان کے ارتکاب کی اجازت دی اور جو اس کے موثر اختیار اور کنٹرول میں تھے۔یاد رہے آئی سی سی، جس کا صدر مقام ہالینڈ ہیگ میں واقع ہے، 2002 میں قائم کیا گیا اور اس کا کام رکن ممالک کی جانب سے یا ان میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی اور جارحیت کے جرائم پر مقدمہ چلانا ہے جب رکن ممالک خود ایسا کرنے کیلئے راضی نہ ہوں یا کرنہ سکتے ہوں۔ یہ رکن ممالک کے شہریوں یا رکن ممالک کی سرزمین پر دوسرے اداکاروں کے ذریعے کیے گئے جرائم پر مقدمہ چلا سکتا ہے۔ اس کے 123 رکن ممالک ہیں۔آئی سی سی کے صدر پیوٹر ہوفمانسکی نے بھی کہا ہے کہ عدالت کے پاس نومبر 2013 کے بعد سے، جب یوکرین آئی سی سی کا رکن بنا، یوکرین کی سرزمین پر کسی کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں دائرہ اختیار ہے قطع نظر اس کے کہ مبینہ مجرموں کی قومیت کیا ہے۔ اگر روسی صدر آئی سی سی کے رکن ممالک کا سفر کرتے ہیں تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ پیوٹن آئی سی سی میں خود پیش ہو جائیں گے یا کردئیے جائیں گے؟اگرچہ موجودہ حالات میں پیوٹن کی خود عدالت میں حاضری یا ان کی گرفتاری بعید از امکان ہے مگر مستقبل میں شاید اس کی نوبت آجائے جس طرح سابق یوگوسلاویہ کے رہنماں کو بھی کئی سال بعد عالمی عدالت میں مقدمے میں سزائیں دی گئیں۔پھر آئی سی سی میں اعلی عہدیداروں کو مجرم ٹھہرانا آسان کام نہیں ہے۔ اپنے قیام کے 20 برسوں میں عدالت نے بنیادی جرائم کے لیے صرف پانچ سزائیں سنائی ہیں اور ان میں کوئی بھی اعلی عہدیدار نہیں تھا۔ لیکن روس کے صدر کے خلاف اس طرح کے وارنٹ کا اجرا بہرحال ایک بڑا قدم ہے۔ یاد رہے مقدمے کے آغاز کیلئے وارنٹ گرفتاری کا اجرا پہلا قدم ہے۔