بعض بیماریاں ٹینشن کی وجہ سے بڑھ جاتی ہیں۔ڈاکٹر حضرات مشورہ دیتے ہیں کہ ٹینشن سے بچیں۔شوگر ہو یا ہائی بلڈ پریشر اس قسم کے مریض کا ٹینشن سے بچنا تو ویسے بھی مشکل ہے۔کیونکہ آج کل آپ دیکھتے ہیں کہ پریشانیوں میں زمانہ کس رُخ پر جا رہا ہے۔حالات مشکل تر ہوئے جاتے ہیں۔ ایسے میں عزیزوں رشتہ داروں میں کہیں شادی بیاہ کی تقریب نکل آئے تو وہاں کھانا اچھا اور وافر ملنے کی امیدہوتی ہے۔ مگر وہاں خود سے بھی لاگت لگانا پڑتی ہے۔اس لئے خاندان کی شادیوں اور خوشی کی دیگر تقاریب میں جا کر اپنے پلے سے خرچ کرنازندگی کو اور دشوار بنا رہا ہے۔ان حالات میں کہ ارضِ وطن میں مالی ابتری ہے شادی کے گھر والوں کو دل بڑا کرنا چاہئے۔جو شادی میں شرکت کو آیا خالی ہاتھ آیا اور تحفہ نہ لایا تو اس پر ناراضی نہ ہو۔کیونکہ سب کو سب پتا ہے کہ یہاں کیا کیا مشکلات ہیں جنھوں نے ہماری معاشرتی زندگی کو مالی پریشانیوں میں جکڑ رکھا ہے۔یہ ٹرینڈ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مرد حضرات اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لے کر ہی نہیں جاتے۔چھرے چھانٹ جاتے ہیں اور اپنا مزے سے کھا پی آتے ہیں۔کیونکہ اس طرح شادی میں شرکت نہ کرسکنے کااگلے کا شکوہ بھی دور ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی کھانے پینے کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں پاتا۔ اب جہاں روز کی روٹی پوری کرنا گھر میں ابتر اور دشوار ہوا جاتا ہو وہاں کسی عزیز کے ہاں شادی ہال میں زرق برق کھانوں پرٹوٹ پڑنا تو تحفہ ہی ہوا۔بندہ یہ چانس کیوں چھوڑدے۔عام آدمی کباب کابلی پلاؤ اور کھیر مربہ ساگ مچھلی پھر چکن کی توے پر تلی بوٹیاں چھوٹا گوشت، قورمہ،سفید گوشت ساتھ کولڈ ڈرنک گھر میں تو نہیں پکاتا۔لہٰذا دوسروں کو خدازیادہ خوشیاں دے وہا ں جا کر کھانے میں آدمی ہچکچاہٹ سے کیوں کام لے۔یہ مواقع روز تھوڑی آتے ہیں او رایک عام آدمی کی دوبارہ شادی بھی تو نہیں ہوتی۔بس کھایا اور پانی نہ پیا پیٹ پر ہاتھ پھیر کر اپنی غریبی کے گھر میں صحیح سلامت لوٹ آئے۔ کسی بیماری نے بہت ستایا تو دوائیاں کہیں گئیں تو نہیں۔ چپکے سے کسی کومعلوم نہ ہونے پائے اور گھرمیں خیرخواہوں سے چھپ کر ایک گولی زیادہ کھا کر دل کو جھوٹی تسلیاں دینے میں کیا حرج ہے۔اب ایسے میں کہ شوگر اور بلڈ پریشر ہائی ہو اوپر گوڈوں گٹوں کی بیماریوں کی ادویات مہینے کی تین ہزار کی آتی ہوں ایسے میں بندہ اگر مرغن کھانے کے لئے کسی ولیمہ پر شادی ہال میں پہنچ جائے توکسی کا کیا جاتا ہے۔ وہ جانے اور اس کی بیماری جانے۔پھر ایسے میں ڈاکٹری نصیحت ہو کہ ٹینشن سے بھی بچنا ہے۔ پھر ادویہ پانچ گنا گراں ہو چکی ہیں ہم نے ٹینشن تو لینا ہوگی۔پھر کھاتے وقت بارات کے جلوس کے ساتھ آکر شادی ہال کی کرسیوں پر ایڈوانس ہی قبضہ کر کے بیٹھ جائیں۔اس وقت گول بڑی میز پر نئے طرز کے اور پرانے انداز میں نئی خوشبویات والے آنکھوں کو چندیا دینے والے کھانے دھر دیئے گئے ہوں۔ پھران میں پرہیزی کھانا کوئی نہ ہو او رصرف پانی ہی آپ کے پرہیز کے لئے رکھ دیا گیا ہو۔ ایسے میں نہ کھا سکنا اور دور سے ان گرما گرم کھانوں کو دیکھ کر مریضوں کرجو ٹینشن ہوتی ہے اس کا علاج کیا کریں۔پھراس وقت اس سے زیادہ ٹینش کیا ہوگی۔پھر اس ٹیشن سے بچیں بھی توکیسے۔شوگر کے مریض ہوں تو انھوں نے بھی چاول جیسی چیز کو تناول تو کرنا ہے اور اگر بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا کوئی پیارا ہو تو وہ بھی آخر انسان ہے اس کے سینے کے اندر دل ہے جو بچہ ہے وہ تو مانگے گا ۔ سو اس کی تسلی کے لئے نارنج والے چاول تو معدہ کے اندر پہنچانا ہوں گے۔پھر گوڈوں گٹوں اور گردوں کی بیماریوں والوں کے الگ الگ پرہیزی کھانے ہیں جو اس مریض کو گھرمیں بھی مالی گرانی کی وجہ سے دستیاب نہ ہوں تو وہ ایسے موقع پر شادی ہال میں اگر پرہیز توڑ کر کھانا کھا لے اور کھانے کے بعد اگلی کسی شادی تک پرہیز کو پھر جوڑلے تو کسی کا کیا بگڑتا ہے۔پھراگر اس کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے تو کوئی اعتراض کی نظر سے دیکھے اس کی کیا ضرورت ہے۔ وہ اپنا اچھا برا زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔اس کواب کیا سمجھانا کہ بھائی میرے ابھی تو کچھ دن پہلے ہسپتال سے آئے ہو ذرا احتیاط سے کام لو۔ خود اپنے دانتوں سے اپنے لئے کھڈے نہ کھودنے لگو۔صاحبان بہت مشکل ہے کہ بندہ جو بیمارہو اور اس کو شیریں اور پُر لطف کھانوں کے قریب پھٹکنے سے منع کیا گیا ہو اوروہ بد پرہیزی نہ کرے۔مگر صحت تو صحت ہے۔کبھی کسی کھانے میں ہوتی ہے اور کبھی کسی کھانے کو نہ کھانے میں ہوتی ہے۔پھرہماری طرح ایسے بھی ہیں جو کبھی جان بوجھ کرلذتِ زباں کے لئے اس قسم کی پابندیوں سے بغاوت کرنے لگتے ہیں۔