اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

 مجھے محسوس ہوا کہ وہ پہلے سے کمزور ہوا ہے۔کیا ہوا میں نے پوچھا بیمار تو نہیں۔ کہنے لگا بس گلہ خراب سینہ خراب ہے۔تو دوا لی کے نہیں میں استفسار کیا‘جی ہاں دوائی تو لے رہا ہوں۔میں نے سوال کیا کتنے دن ہوئے‘ اس نے کہا پانچ روز سے یہی کیفیت ہے‘ بخار ایک سو ہے اوپر جاتا نہیں کھانسی ہے۔پھر دواؤں کا عجب ذائقہ ہے۔حتیٰ کہ کسی چیزمیں کوئی لذت ہی محسوس نہیں ہورہی۔سو کے بخار اور لذتِ زباں کا نہ ہونا۔ اس پرتو میں آنکھیں گول گول گھماکر اس کو دیکھنے لگا۔پھر کہنے لگے پٹرول کی بُو تک نہیں آتی۔اوہو میں سمجھ گیا۔میں نے کہا تم نے کورونا کی ویکسین کے ٹیکے مکمل کئے تھے‘اس نے کہا جی ہاں میں نے صرف ایک ٹیکہ لگایا تھا۔ مجھے غصہ آنے لگا۔خدا کے بندے تو باقی کے دو ٹیکے اور اس پر ایک اور بھی تو لگانا تھا‘پہلے ٹیکے کا تو مطلب ہے کہ یہ زیرو ڈوز ہے‘یعنی لگائی نہ لگائی ایک برابرہے‘لیکن پہلا بھی غنیمت ہے‘اس کے بعد کورونا اگر ہوتو اس کی شدت وہ نہیں ہوتی۔خیر کل ٹیکوں کے سنٹر جا کر وہاں دوسری ڈوز لگا لو۔حالانکہ ویکسین کم یاب ہے‘مگر جہاں سے بھی ہو لگا لو تاکہ کورونا جیسی وبا سے حفاظت کا بندوبست زیادہ بہتر ہو جائے‘آج کل دس بارہ دن ہوئے کہ کووڈ نے پھر سے سر کشی شروع کر رکھی ہے‘اس وائرس کے مریض پھر سامنے آنے لگے ہیں‘پوچھنے لگا تو کیا ویکسین لگانا ضروری ہے‘میں نے کہا کورونا ہو نہ ہو ویکسین لگانا اچھا ہے۔جیسے اس بچے کو جسے پولیو نہیں ایڈوانس میں ویکسین لگاتے ہیں۔ویکسین او راینٹی بائیوٹک میں یہی فرق ہے کہ ویکسین بیماری کے حملہ آور ہونے سے پہلے لگا لی جاتی ہے جبکہ اینٹی بائیوٹک دوائی بیماری کے جسم میں آکر حملہ کردینے کے بعد لی جاتی ہے‘بچوں کے ٹیکوں کے کورس ویکسین ہوتے ہیں ویکسین لگا لینے پر بندہ ان بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے‘عام طور سے کورونا کا پہلا انجکشن زیرو ڈوز فارمولاشمار ہوتا ہے‘ دوسرے انجکشن کا مطلب آپ اسی فیصد محفوظ ہیں او رتیسری ڈوز لگانے پر آپ نوے فی صد حفاظت میں آ گئے اور پھر چھ ماہ کے بعد چوتھی بوسٹر ڈوز لگادینے پر آپ بفضلِ خدا عالمی بیماری سے ننانوے فی صد محفوظ ہو جائیں گے‘ویسے اب تو کورنا کا زور ٹوٹ چکا ہے‘ وجہ یہ کہ ارضِ وطن کی پچاس فیصد آبادی کو کورونا ویکسین لگ چکی ہے۔مگر پھر بھی جو باقی ہیں وہ بھی اگر ڈوز لگا لیں تو بہتر ہوگا‘ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو انجانے میں کورونا کا شکار ہوئے اور پھر ان کو پتا بھی نہ چلاوہ ٹھیک بھی ہو چکے ہیں‘وہ اس بیماری کی علامات دیکھتے ہیں تو حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے یہی علامت اپنے اندر محسوس کی تھیں۔جہاں تک ہمارا اپناذاتی معاملہ ہے ہم نے تین ڈوز لگا لی ہیں۔موقع ملا تو چوتھی ڈوز بھی لگائیں گے۔ بلکہ اپنی گھروالوں کو بھی تین تین ڈوز لگا رکھی ہیں۔مگر اس کی علامات نت نئی بھی ظاہر ہوتی ہیں‘مثلاً ایک خاتون کو الٹیاں شروع ہوگئیں‘ بہت علاج کروایا مگر الٹیاں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی‘کسی نے کہا آپ ذرا کورونا کا ٹیسٹ کروائیں‘ اب الٹیوں کا کورونا سے کیا تعلق ہے ٹیسٹ کروایا۔معلوم ہوا کہ بی بی کو توکورونا ہوا ہے۔جوڑوں کا درد کا زیادہ ہوجانا بھی اسی کھاتے میں ہے۔الغرض اپنی علامات کے لحاظ سے یہ بہت دھوکا دینے والی بیماری ہے‘ سو ا س سے بچنا ضروری ہے۔پچھلی وبائے عام میں نادانی کی وجہ سے بھی اورنفسیاتی دباؤ میں آ جانے کے کارن کافی لوگ مر گئے بعض لوگ  فون پر بھی بات کرنے سے غلط فہمی میں کورونا کی علامات کو اپنے اندرمحسوس کرنا شروع کر دیتے‘ایک مریض سے بات کی تو وہ حوصلہ ہار چکا تھا۔ وہ کمزوری کی وجہ سے فون پر بھی بات نہیں کرسکتا تھا۔پھر اس کا تو یہ تکیہ کلام بن گیا کہ زندگی کا بھروسہ نہیں کہا سنا معاف کرنا اور کھانسی اور سانس کے خراب ہونے کی وجہ سے ٹھاک سے فون بند کر دیتے۔مگر دوسرے صاحب سے بات ہوتی جو اسی کووڈ کا شکار تھے۔ وہ تو بڑے اچھے انداز سے بات کرتے اور مرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے‘ حوصلہ اور ہمت ان میں بہت کمال کی تھی۔ کہتے کہ میرا حوصلہ بلند ہے۔جو ہوگا دیکھا جائے گا۔میں ہر بات کیلئے تیار ہوں۔ یہ جو امیون سسٹم ان کے اندر ان کی نفسیات میں بھی موجود تھا اس کی وجہ سے وہ جلد شفایاب ہوئے۔ مجھے ان کے رویہ نے بہت متاثر کیا۔