ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے کب نکلیں گے؟

آئی ایم ایف کی پاکستان کی معاشی پالیسیوں میں مداخلت کااس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان جو روس سے سستا پٹرول خرید رہا ہے اس پر بھی اس نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور ساتھ ہی غریبوں کو سستا پٹرول فراہم کرنے کے معاملے پر بھی اس کے تحفظات موجودہیں۔غلام اسحاق خان صاحب کو خدا بخشے وہ اکثر حکمرانوں کو کہا کرتے کہ روپے درختوں پر نہیں اُگتے اس لئے اپنے اخراجات کو کم کرو،اسراف کی بجائے قناعت کا کلچر عام کرو کہ کل کلاں تم نے ان بیرونی قرضوں کو بمعہ بھاری سود واپس بھی کرنا ہے، اس لئے اپنے پاؤں اتنے پھیلاؤ کہ جتنا تماری چادر کا سائز ہو۔ دوسری طرف عالمی سطح پر تنازعات نے اہم معاملات کو نظروں سے اوجھل کر دیا ہے اور ایک طرف موسمیاتی تبدیلی اور غذائی قلت جیسے گھمبیر مسائل سامنے موجود ہیں تو دوسری طرف طاقتور ممالک کے درمیان اثر رسوخ کی رسہ کشی جاری ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی زیادہ تر آبادی کو پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور  یونیسیف کے ڈائریکٹر آف پروگرام  نے  گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ افریقہ میں خاص طور پرپانی کی قلت تباہ کن صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ یونیسیف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق 10 افریقی ممالک میں ایک کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ بچے بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں علاقے میں آب وہوا کی تبدیلی سے منسلک دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔تین خطرات، جنہیں اجتماعی طور پر WASH کہا جاتا ہے، وہ ہیں: ناکافی پانی، صفائی ستھرائی کا فقدان اورحفظان صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی۔یونیسیف کے تجزیے کے مطابق متاثرہ ملکوں میں بہت سے بچوں کو بنیادی صفائی ستھرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے نتائج اقوام متحدہ کی 2023 واٹرکانفرنس سے چند روز قبل جاری کیے گئے ہیں۔تقریباً ایک تہائی بچوں کے لئے گھروں میں پانی دستیاب نہیں ہے، جب کہ دوتہائی کو صفائی کی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔ ایک چوتھائی بچے کھلے میدانوں میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں اوراس کے لئے ان کے پاس کوئی متبادل جگہ نہیں ہے۔تین چوتھائی بچے اپنے ہاتھ تک نہیں دھو سکتے کیونکہ انہیں گھرمیں صابن اور پانی، دونوں ہی میسر نہیں ہیں۔پانی ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے اور اس نایابی سے متاثر ہونے والے ممالک میں خاص طور سے بینن، برکینا فاسو، کیمرون، چاڈ، کوٹ ڈی آئیوری، گنی، مالی، نائجر، نائجیریا اور صومالیہ شامل ہیں۔ان ضروری وسائل کی عدم دستیابی کے ساتھ، ان میں سے بعض ملکوں کے بچوں کو عدم استحکام اور مسلح تنازعات جیسے خطروں کا سامنابھی ہے۔اقوام متحدہ حکام  کا کہنا ہے کہ بچوں کی زندگی کا ضیاع خاندانوں کے لیے بڑا المیہ ہے اور وہ ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ اس تکلیف اور درد کا احساس اس وقت اور شدت اختیار کر جاتا ہے جب یہ پتہ ہو کہ اسے روکا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کی وجہ پینے کے صاف پانی، بیت الخلاء اور صابن جیسی بنیادی ضروریات کا نہ ہونا ہے۔کیا ایسے حالات میں عالمی طاقتوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ آپس کی چپقلش کی بجائے اپنی توانائیاں انسانیت کی بہتری کیلئے بروئے کار لائیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین کے کئی پروگرام ایسے ہیں جو روئے زمین پر انسانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔