ترقیافتہ ممالک کے بارے میں بار ہا سننے میں آتا ہے کہ وہاں وزیراعظم اور صدر رہنے والے سیاستدان مدت ختم ہو کر پرانے گھر چلے جاتے ہیں اور عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہیں‘ اس کے برعکس ہمارے ہاں بعض لوگ اہم عہدوں پر رہیں تو5سال بعد انکی مالی حالت میں واضح تبدیلی آچکی ہوتی ہے اور ان کا گھر پرانے علاقے سے کسی پوش ٹاؤن شپ میں منتقل ہو چکا ہوتا ہے یا اسی گھر کا سائز کئی گنا بڑا ہو جاتا ہے بہت سے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی قسم کی بدعنوانی نہیں کی‘ مگر انہوں نے اپنی حیثیت کا استعمال کر کے اتنا کچھ حاصل کیا ہوتا ہے کہ انکی اور انکے قریبی عزیزوں اور دوستوں کی زندگیاں بدل چکی ہوتی ہیں لگژری گاڑیاں‘ جائیداد‘ اثاثے‘ کاروبار سب کچھ ان کے پاس آجاتا ہے ایسے میں دیکھا جائے تو ملک میں چند ہی شخصیات ہیں جنہوں نے ایمانداری اور اصول پسندی کو دوسری چیزوں پر ترجیح دی، عوامی مفاد کے مسائل پر بات کی اور انکی فلاح کے منصوبوں کا آغاز کیا ان شخصیات میں ایک معتبر نام پاکستان کے سابق نگران وزیراعظم ملک معراج خالد مرحوم کا ہے جنکی زندگی اور جن کا طرز سیاست آج کے سیاستدانوں‘ سیاسی کارکنوں‘ نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہے۔ معراج خالد 1916ء میں لاہور کے قریب ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے‘ کہتے ہیں کہ غربت اتنی تھی کہ تعلیم کیساتھ ساتھ وہ دودھ بیچنے کا کام بھی کرتے تھے‘ اور وسائل کایہ عالم تھا کہ معراج صاحب اور انکے والد جوتوں کا ایک ہی جوڑا استعمال کرتے تھے یعنی جو باہر جاتا وہ جوتے پہن لیتا‘ اسی غربت کے عالم میں انہوں نے تعلیم جاری رکھی ظاہر ہے والدین اور خاندان کی حوصلہ افزائی کا بڑا ہاتھ تھا1944ء میں قانون کا امتحان پاس کیا اور جلد ہی اپنی لاء فرم قائم کر دی، خدمت خلق اور سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے وکالت اور سیاست دونوں میں پیسہ کمانے کی بجائے عام آدمی کی خدمت کرنے ایمانداری اور اصول پسندی کو فروغ دینے اور ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت کے قیام کیلئے کوششوں کو ترجیح دی۔1964ء میں اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی نظر میں بھی آگئے اور انہوں نے چند سال بعد ہی نہ صرف ان کو پارٹی میں اہم ذمہ داریاں سونپ دیں بلکہ پنجاب کے بڑے جاگیرداروں اور سیاستدانوں کی بجائے ایک درویش صفت غریب گھرانے کے معراج خالد کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا‘ مگر شاید صوبے کے گورنر کی ان کے ساتھ نہیں بن رہی تھی اسلئے کچھ عرصہ بعد معراج خالد کو وفاقی وزیر زراعت بنا دیا اور بعد میں انہیں قومی اسمبلی کا سپیکر مقرر کردیاگیا‘ جب پاکستان پیپلز پارٹی بے نظیربھٹو کی سربراہی میں اقتدار میں آئی تو انہیں دوبارہ قومی اسمبلی کا سپیکر مقرر کیا گیا جب انہوں نے1993ء میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو ایک مقامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا ٹاسک دیہات میں غریب بچوں کیلئے سکول قائم کرنا تھا‘ جب بینظیر بھٹو کی حکومت دوسری بار گرائی گئی ملک میں انتخابات کیلئے نگران کابینہ تشکیل دی گئی تو معراج خالد صاحب کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا یوں ایک غریب زمیندار کا دودھ فروش بچہ اپنی قابلیت‘ ایمانداری‘ اصول پسندی اور بصیرت سے ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ گیا مگر نہ اس کی چال ڈھال بدلی نہ ہی اسکے اثاثوں میں وزارت عظمیٰ‘ وزارت اعلیٰ وفاقی وزراء یا سپیکر قومی اسمبلی کے دور میں کوئی اضافہ ہوا‘ کہتے ہیں کہ نگران کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی انہوں نے وزراء کی تنخواہوں میں کمی کا اعلان کیا جبکہ اعلان کیا کہ ائرپورٹ اور دوسری جگہوں پر وی آئی پی لاؤنج ختم کئے جائیں تاکہ سب کو برابری کا احساس ہو‘ وزارت عظمیٰ کے دوران بھی اور اسکے بعد بھی تین کمروں کے مکان میں رہائش پذیر رہے 2003ء کو جب ان کی وفات ہوئی تو کوئی جائیداد نہیں چھوڑی البتہ20سال بعد بھی لوگ ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور انکی ایمانداری‘ اصول پسندی اور خاکساری کو دوسرے سیاست دانوں کیلئے ایک مثال قرار دیتے ہیں۔