کرکٹ: سنگ میل عبور

قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلے گئے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے آٹھویں ایڈیشن کے فائنل میں لاہور قلندرز نے ملتان سلطانز کو ایک رن سے شکست دی جو اِن مقابلوں کا نہایت ہی پرجوش اور حسب توقع دلچسپ اختتام تھا۔ شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں میزبان ٹیم کی بڑی تعداد نے حمایت کی اور پی ایس ایل میں مسلسل دوسری مرتبہ ٹائٹل جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پی ایس ایل ایک ایسا ایونٹ ہے جو اس وقت سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال میں گھری ہوئی قوم کے لئے خوش آئند ہے۔ سال دوہزارتئیس کے پی ایس ایل مقابلے ملتان کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی میں کھیلے گئے جو خوش آئند تھا لیکن اِس مرتبہ حسب وعدہ و اعلان پشاور کو شامل نہ کرنے سے خیبرپختونخوا میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ پی ایس ایل میں پاکستان اور بیرون ملک کے ٹاپ کلاس کرکٹرز حصہ لیتے ہیں اور یہ دنیائے کرکٹ کے چند مقبول ترین ’ٹی ٹوئنٹی مقابلوں‘  میں شامل ہے جس پر پوری دنیا سے شائقین کرکٹ کی نظریں جمی رہتی ہیں اور وہ اِس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل‘ انگلینڈ کے ایلکس ہیلز اور جیسن رائے‘ آسٹریلیا کے میتھیو ویڈ اور افغانستان کے راشد خان جیسے غیر ملکی سٹارز نے اِس مرتبہ ’پی ایس ایل‘ کو چار چاند لگائے تاہم اس حقیقت کے باوجود کہ ایونٹ میں خاص طور پر پنڈی میں رن فیسٹ کا سلسلہ دیکھنے میں آیا‘ پاکستان کے تین فاسٹ باؤلرز ٹاپ پرفارمرز (سرفہرست) رہے۔  یہ حقیقت ہے کہ شاہین آفریدی اِن میں سے ایک تھے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ اُنہیں پی ایس ایل فائنل کے فوراً بعد پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان بھی بنا دیا گیا۔ بائیں ہاتھ کے لمبے قد کے فاسٹ بولر کا شمار دنیا کے بہترین فاسٹ بولرز میں ہوتا ہے اور وہ پی ایس ایل کی تاریخ میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بننے کی اہم وجوہات میں سے ایک تھے۔ اپنے متاثر کن کیریئر میں پہلی بار شاہین شاہ آفریدی ایونٹ کے دوران میچز تبدیل کرنے والی چند اننگز کے ساتھ آل راؤنڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں اور یہ پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی سکواڈ کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی کامیابی کی پہلے ہی سے توقع کی جا رہی تھی لیکن ملتان کے نوجوان فاسٹ باؤلر احسان اللہ اور عباس آفریدی کے کارناموں نے ایسے مقابلے میں سرخیوں میں جگہ بنائی جس پر پنچ ہٹرز کا غلبہ تھا۔ احسان اللہ اور عباس بھی ٹاپ کلاس فاسٹ باؤلرز کے طور پر اُبھرے ہیں اور انہیں حارث رؤف کی طرح بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان بنانا چاہئے یقینا پشاور زلمی کے حارث اور صائم ایوب جیسے نوجوان مقامی ٹیلنٹ پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہیں۔ پی ایس ایل کے دوران صرف نوجوان ستارے ہی نہیں چمکے بلکہ پاکستان کے کپتان بابر اعظم بھلے ہی کراچی کنگز کی جیت کا رخ موڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن انہوں نے مقابلے کے دوران سب سے زیادہ رنز بنائے اور اپنی شاندار بیٹنگ سے ہمیں یہ ضرور دکھایا کہ انہیں دنیا کے بہترین بلے بازوں میں کیوں شمار کیا جاتا ہے۔ پی ایس ایل کے اہم نتائج میں معروف پاکستانی اور غیر ملکی خواتین کھلاڑیوں کی نمائشی کھیلوں کا سلسلہ بھی شامل تھا۔ یہ سیریز پی ایس ایل طرز کی ویمنز ٹی ٹوئنٹی لیگ کا پیش خیمہ بنی جسے پاکستان اگلے سال شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ آٹھ سال قبل اپنے آغاز کے بعد سے پی ایس ایل دنیا کی ٹاپ ٹی ٹوئنٹی لیگز میں سے ایک بن چکی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے اعلان کردہ منصوبوں کے بعد توقع ہے کہ اگلے سال پی ایس ایل میں مزید دو ٹیمیں اور تین مزید مقامات پشاور‘ کوئٹہ اور فیصل آباد شامل کئے جائیں گے جس سے حقیقی طور پر اِس قومی برانڈ (پی ایس ایل) کی ساکھ مزید مستحکم و بہتر ہوگی۔