پہلے کہتے تھے کہ کاش اگر ہم لکھے پڑھے ہوتے تو خط ہی لکھ لیا کرتے۔مگر اب تو خط لکھنے کے زمانے ہی گئے۔اب تو دس منٹ تک اور اس سے زیادہ اور پھر دوبارہ اور بار بار بول کر باتیں کرو چھوڑو لکھنے کو اور بہ ہزار کوس آمنے سامنے کی باتوں کے مزے لو تصویریں کھینچو اور کھینچ کر سات سمندر پار بھیج دو۔ بلکہ موبائل پرلائیوو کال کے ذریعے ایک دوسرے سے ہم کلام ہوا کرو۔وٹس ایپ ہے ناں بس باقی کسی اور سہولت کی بلکہ آفت کی کیا ضرورت ہے۔اس کے علاوہ جو اور دیگر ویب ہیں ان کی بھی بھلا کیا ضرورت ہے۔ایک ہی کافی ہے۔بس صبح دوپہر شام اور ہفتہ کے سات ایام گفتگو کا ڈول ڈالو۔وٹس ایپ نہیں تھکے گا ہاں اگر آپ تھک نہ گئے۔ شعر یاد آیا اور جانے کیوں ہماری اپنی قارئین کے ساتھ دو بدو گفت وشنید ہوتی ہے پھر اس وقت شعروں کی مداخلت کیا معنی رکھتی ہے۔مگر ”آ گئے ہو تو چلو رسمِ زمانہ ہی سہی“۔اب شعر آیا ہے اور وہ بھی احمد فراز کا تو کیوں نہ لگے ہاتھوں بیان کرتے چلیں۔ ہر چند شاعر نے کسی اور منظر نامہ میں پیش کیا ہوگا۔ مگر ہم جو کسی اور تصویر سے ستارے توڑ کر اپنی تحریر کے کینوس پر سجا دیتے ہیں۔”اب تیرا ذکر بھی شاید
ہی غزل میں آئے۔ اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں“۔اب تو لکھت پڑھت نہ ہونے پر بھی خط لکھے جاتے ہیں زبانی بولے جاتے ہیں۔معاملات آسان سے آسان تر ہوئے جاتے ہیں۔ مگر حیران ہوں کہ زندگی پھر بھی ازحد دشوار ہوئی جاتی ہے۔اتنی کہ جتنی روزمرہ کے لحاظ سے پہلے زمانوں میں نہ تھی۔ لکھنا پڑھنا تو جیسے رسمی سا ہے اور پھر یوں لگتا ہے کہ ترک کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ان پڑھ بھی ہے تو وہ بھی ہاتھ میں موبائل لے کر بیٹھا ہے اور خوب مزے سے دنیا بھر کی سیر کرنے میں اور آواز کو سات پانیوں کے رنگوں والے سمندروں کے پار پہنچا رہا ہے۔خوشیوں کے دوران میں قیمتی لمحات کی تصاویر اور موویاں آر پار بھیجی جا رہی ہیں۔آج تو بس کھیلو کود اور مالدار ہو جاؤ گے۔وہ زمانے تو گائے کھا گئی کہ ”پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب“۔ اب تو پڑھ لکھ کر مزید خراب ہونے والی بات ہے۔کیونکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی ڈگری ہاتھ میں ہو تو نوکری نہیں ملتی۔ہمارا ماضی کا زمانہ اچھا تھا جب کالج کے استاد کی نوکری کے لئے ڈیڑھ دو سو امیدوار امتحان کا فارم جمع کرواتے تھے۔پھر سیٹیں بھی پندرہ ہوتیں۔ مگر اب تو زمانے کے ترقی کرنے کے باوجود اور ہائی تعلیم یافتہ لوگوں کے ہوتے سوتے لوگ بیروزگار ہیں۔ اب تو ایک ایک پوسٹ کے پیچھے ہزاروں امیدوار ہیں۔اور رنگ برنگ ٹیسٹ ہیں۔ماضی کے جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں وہ تو عرصہ پچیس تیس سال پہلے کا ہے۔ماضی میں ہمارے عزیز ہوتے تھے۔ ایک بار انھوں نے کہا یار ہماری جوانی کا زمانہ بہت اچھا تھا۔ ہم نے پرائیویٹ ایم کیا تو یونیورسٹی سے ہمارے لئے آفر آئی کہ آپ کی مہربانی ہوگی اگر آپ ہمارے ہاں پروفیسر کی نوکری اختیار کرلیں۔ مگر ہم پھر بھی نہیں گئے۔کیونکہ ہم نے تو ڈگری زیادہ کرنے کو ماسٹرز کر لیا تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے وہ انکل ایسے سرکاری محکمے میں ہیڈ کلرک تھے کہ اپنے محکمہ میں اتنے خوش تھے کہ ان کو اس زمانے کی یونیورسٹی میں گریڈسترہ کی نوکری کی تنخواہ کم تر نظر آئی۔خیر آج توکھیلو کودو اور نواب بن جاؤ۔ ہر گیم ہے اور بازی ہے جس میں پیسے کی بہتات ہے۔پی ایس ایل میں کتنا پیسہ لگا۔مگر جو گراؤنڈ سے منسلک لوگ تھے۔ انھوں نے اس ایونٹ سے خوب کمایا او رخوب کمایا۔پھر آج ایک گیم تو نہیں ہے۔درجنوں گیم ہیں جن میں رہ کر بندہ پیسے کما سکتا ہے خواہ کھلاڑی ہو یا کھلاڑیوں کا منیجر یا اس ٹائپ کی کوئی شئے ہو۔آج کل کھیلوں پر بھر پور توجہ ہے۔کوئی کھلاڑی ذرا سا اونچا ہو جائے تو اس کی کارکردگی کو کیش کرنے کے لئے مختلف عہدیدار میدان میں اُتر آتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ آج کل کھیلوں کا شعبہ ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بھی اہم ہے۔یعنی کھیلوں نے ایک اور صورت اختیار کرلی ہے اور اب کھیل محض کھیل نہیں رہا بلکہ یہ ایک سنجیدہ معاملے کی صورت اختیار کرگیا ہے اور کھلاڑی بھی اب اثرورسوخ کے لحاظ سے دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔