تاریخ کے گم شدہ اوراق 

برصغیر کی انتظامیہ کی تاریخ بڑی دلچسپ اور سبق آ موز ہے  اس موضوع پر ہم اپنے ان کالموں کے ذریعے اس کے کئی گمشدہ اوراق کو ڈھونڈ کر اپنے قارئین کی معلومات کیلئے پیش کریں گے ہم اس سلسلے کی ابتداء ماضی بعید کی بجائے ماضی قریب سے کریں گے۔فرنگی1947 میں جہاں پاکستان ریلوے،ا ری گیشن سسٹم اورمواصلاتی شعبے کی سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ورثے میں وطن عزیز کے واسطے چھوڑ گئے تھے وہاں تحصیل لیول سے لے کر ڈویژنل سطح تک سول  انتظامیہ کا ایک ڈھانچہ بھی انہوں نے چھوڑا تھا، ہم آج اس ضمن میں ابتدا خیبر پختونخوا کے حوالے سے کریں گے ایک لمبے عرصے تک نوشہرو چارسدہ مانسہرہ ہنگو اور ٹانک وہ پانچ سب ڈویژن تھے کہ جو انتظامی لحاظ سے بڑے اہم تصور کئے جاتے تھے کہ ان کے قرب و جوار میں قبائلی علاقے واقع تھے جیسا کہ ٹانک کے ساتھ بھٹنی اور مسعود قبائل کا علاقہ چارسدہ کے نزدیک مہمند قبائل کی آبادی مانسہرہ میں کالا ڈھاکہ کا علاقہ وغیرہ، مندرجہ بالا سب ڈویژنوں میں نہایت ہی ذہین قابل اور اچھی شہرت رکھنے والے سینئر ترین سول افسران کو بطور اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا جاتا۔1980 کے بعد تو خیر سول انتظامیہ کا حلیہ ہی بدلا دیا گیا اب تو کئی سب ڈویژنوں کو اضلاع کا درجہ دے گیاہے  ایک اچھا خاصا سول سروس کا نظام بندوبستی علاقے یعنی کہ ریونیو ڈسٹرکٹس میں بھی چل رہا تھا اور قبائلی علاقے یعنی سابقہ فاٹا میں بھی۔  سول سروس میں بھرتی کا ایک جامع طریقہ کار تھا مقابلے کے امتحانات کے ذریعے ان   میں سیلیکشن ہوا کرتی جو وفاقی سروسز کیلئے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کرتا اور صوبائی سروسز کے واسطے صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے توسط سے ہوتی۔اس بات میں تو کوئی دو آ را نہیں ہیں کہ سول سرونٹس خصوصا انتظامی افسران  جیسا کہ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار وغیرہ کا تو عام آدمی سے چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اس افرادی قوت نے حکومت وقت کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے اور ان کا  عام آ دمی  کے ساتھ روزمرہ کی بنیا د پر 24 گھنٹے رابطہ ہوتا ہے اگر یہ افراد غیر سیاسی بنیاد پر خالصتا میرٹ پر چنے نہ ہوں گے تو وہ ان علاقوں کے عوام کا اعتماد کبھی بھی حاصل نہیں کر پائیں گے کہ جن کے علاقے کی  دیکھ بھال کیلئے انہیں تعینات کیا جاتاہے۔اب کچھ تذکرہ ہوجائے ان بیوروکریٹس کا جنہوں نے اپنی دیانت داری، اصول پسندی اور فرض شناسی سے مثالیں قائم کی تھیں۔ ان میں سیّد فریداللہ شاہ، ظفر علی خان،غلام اسحاق خان، روئیداد خان، روشن ضمیر  اور شیر افضل خان  جیسے نام قابل ذکر ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ سول سروس کے ڈھانچے میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اور خاص طور پر پرویز مشرف کے دور صدارت میں اس حوالے سے کئی اقدامات اٹھائے گئے جس نے سول سروس کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کیا۔ ہم آج تک اس بات کو نہیں سمجھ سکے ہیں کہ آخر کیا ضرورت پڑی تھی حکمرانوں کو جو انہوں نے سول سروس کے اس ڈھانچے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جو پوری طرح نتائج دے رہا تھا۔ سول سروس ہر حکومت کی ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہوتی ہے اگر حکمران اس میں میرٹ کے علاہ کسی اور بنیاد پر سلیکشن کرتے ہیں تو گویا وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ ڈلیور نہیں کر پاتے تو وہ حکومت  کے ایجنڈے کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔