روزے آئے ہیں تو اپنے ساتھ وہ یادیں بھی لے آئے جو اب بھی دل میں کچوکے بھرتی ہیں۔وہ افطاری کے بعد یاروں کی منڈلیاں۔مگر اب وقت نے ایسا پانسہ پلٹا ہے کہ وہ سب کچھ جو بچپن کے دنوں میں رات سحری تک ہم کھیلتے کھالتے پھرتے پھراتے نہیں رہا۔ بے فکری کا زمانہ تھا۔ فکر کرنے والے ہم کون ہوتے۔ جن کو فکر تھی۔یعنی ہمارے ماں باپ جو اب ہم میں نہیں۔ اب ان کی طرح ہم خود اپنے الگ الگ گھر کی نہ صرف فکر کرتے ہیں بلکہ فکر میں گھلتے جاتے ہیں۔افطاری کے دستر خوان کے لئے یہ کہاں سے آئے گا وہ کہاں سے آئے گا۔ اب تو اور فکرات بھی آن کر سانپ کی پٹاری میں کنڈلی مار کر بیٹھ گئے ہیں۔ جو اندر اندر ڈستے ہیں مگر ہم کسی کو کہنے کے قابل بھی نہیں رہے۔وہ فراز کا شعر پھر یاد آیا ”چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز۔ دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے“۔اب تو معاملات نے اور شکل اختیار کرلی ہے۔بلکہ معاملات اتنے بگڑے ہیں کہ ایک سیلاب کا روپ دھار چکے ہیں۔کیا کریں کس کو معلوم تھا کہ ایک ہنستا بستا معاشرہ وہ ماضی کے درخشاں شب و روز موتیوں کی مالا کی طرح گر کر بکھر جائیں گے۔ اب تو نہ وہ ماحول ہے نہ وہ دوست یار ہیں اور نہ ہی وہ بے فکری کا زمانہ ہے۔ دوستوں میں کوئی کس ملک میں ہے اور کوئی کس ملک کا باشندہ بن کر بمعہ اہل و عیال جی رہا ہے۔پھر ان کی جدائی کو کیا سامنے رکھیں۔یہاں تو اپنے شہر میں جو دوست سامنے تھے وہ بھی کہیں اس وقت کے سمندر کی وسعتوں میں کہاں سے کہاں غائب ہو چکے ہیں کہ جن کا نہ تو ٹیلی فون نمبر ہے اور نہ رابطہ ہے اور نہ ہی ان کا گھر معلوم ہے۔پھر اگر سب اتا پتا جانتے بھی ہیں تو وقت کہاں ہے کہ سارے ضروری کام چھوڑ چھاڑکر وہ محفلیں پھر سے سجائیں۔ اگر بالفرض ہم فراغت سے ہیں تو دوسرا تو فارغ نہیں جس کوملنے کو دل کرتا ہے۔وہ تو اپنے غموں میں ہماری طرح اپنی جھمیلے میں وقت کے اس ریلے میں بہہ کر جانے کہاں سے کہاں نکل گیا ہوگا۔افطاری کے بعد تراویح کی نماز پڑھ کر گلی میں ہماری بیٹھک کے دروازے شام کے بعد کھل جاتے تھے۔دور پار کے محلے سے بھی دوست جوق در جوق آتے اور بیٹھک میں محفل سجتی۔پھر اگر جگہ تنگ پڑجاتی تو فضلِ معین ارباب گلی کی نکڑپر چارپائیاں بچھا کر وہاں خو دہی پانی کا چھڑکاؤ کر تے اور کیرم بورڈ کو ایک ٹیڑھی میڑھی میز پر آڑھا ترچھا رکھ کر وہاں چار ٹولیں سجا دی جاتیں۔ اس کے بعد وہاں کیرم بورڈ کے مقابلے جاری ہو جاتے۔میں تجھے شکست دوں اور تو مجھے ہرا دے۔وہاں اس رش میں کسی کا کیرم بوڈر کا میچ جیت جانا بہت فخر کی علامت تھا۔کیونکہ کیرم کھیلنے والوں کے ساتھ تماش بین بھی کھڑے ہوتے۔پھر سڑک پر سے گزرنے والے راہگیر بھی اس شور شار کو سن کر وہاں آن کھڑے ہوتے۔زندگی اپنی ایک الگ شان اور ترتیب سے رواں دواں ہوتی۔گھرکے اندر کی فکر کرنا ہمارا کام نہ تھا کہ وہاں کیاسودا سلف لانا ہے اور کیا چاہئے۔بہت ہوا تو روٹی لاکر دے دی اور سحری کو بھی تندور والے کے پاس دسترخوان بچھا دیتے۔ ٹفن کا پیالہ لے جا کر وہاں دودھ والے کے پاس سے دودھ اور ملائی لے کر آ جاتے۔اتنا کنفرم ہوتا کہ ہمارے حصے کی ملائی امی جان نے ایک قہوے کی خالی پیالی میں ڈال کر رکھی ہوگی۔بس سحری کر کے نماز کے لئے سب علاقے کے لوگوں کے ساتھ باجماعت جا کر کھڑے ہو جاتے۔اس کے بعد تلاوتِ قرآن ہوتی اور پھر تھوڑی دیر بعد نیند کے ہاتھوں ہماری الگ شکست لکھی ہوتی بے فکری ہی بے فکری تھی۔کچھ معلوم نہ تھا کہ روٹی کتنے کی ہے بس ہمارا ایک کام تھا کہ کھاؤ پیو اور عیش کرو او رسو جاؤ پھر اٹھ کر گلی میں نکل چلو گلی کے کونے پردوستوں کی منڈلی میں گپ شپ کا ڈول ڈالو۔موبائل کا تو دور تک نام ہی نہ تھا۔ ہاں یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک چھوٹا سا جیب کا ریڈیو ہوتا تھا۔اس وقت سے ہم ریڈیو سنتے او رخبروں سے دل بہلاتے تھے۔یہ ایک اچھی عادت آج ہمیں کالم لکھنے تک لے آئی ہے۔موبائل ہوتا تو وہ زمانہ جو آہستہ آہستہ بدلا ہے جلدی ہی بدل جاتا اور کیا سے کیا ہو جاتا جو آج ہوچکا ہے وہ اس وقت فوراً تبدیل ہو جاتا ہے۔