اگر جانور بول سکتے تو یہ صورتحال پاکستان کے لئے شدید مشکلات اور شرمندگی کا باعث ہوتی۔ کاون نامی ہاتھی کی اسلام آباد کے چڑیا گھر سے واپسی کے سفر کے بعد سوچا گیا تھا کہ جانوروں کی دیکھ بھال سے متعلق حکام اِن کی صحت و حفاظت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوں گے بالخصوص اُن جانوروں کے بارے میں اِن کا نظریہ بدلے گا جو ملک بھر کے چڑیا گھروں میں قید ہیں لیکن حالیہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ کراچی کے چڑیا گھر کا حصہ سولہ سالہ ہتھنی نور جہاں کی طبیعت اِس حد تک خراب ہے کہ اُسے ہنگامی بنیادوں پر علاج معالجے کی ضرورت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مطالبات کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ اِس کی تکلیف گھٹنے کے جوڑوں میں سوجن سے شروع ہوئی اور چونکہ بروقت علاج نہیں ہوا اِس لئے بیماری بڑھ کر اِس کی ریڑھ کی ہڈی تک پھیل چکی ہے۔ وہ جسمانی طور پر انتہائی کمزور ہو گئی ہے اور اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت بھی کھو چکی ہے۔ بے بس ہتھنی اور جانوروں کے حقوق پر نظر رکھنے والے بے صبری سے اِس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ متعلقہ حکام کم از کم اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ وہ بیمار ہے
اور اُسے طبی امداد کی ضرورت ہے۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ چڑیا گھر کے حکام کئی جانوروں کی صحت کو لاحق خطرات کا انکار کر رہے ہیں۔ ’نورجہاں (نامی ہتھنی)‘ کی پہلے اور بعد کی تصاویر چڑیا گھر کے حکام کے دعوؤں کے جواب میں کافی ثبوت ہیں کہ وہ جانوروں کی نگہداشت کرتے ہوئے غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگست دوہزاربائیس میں اِسی ہاتھنی کے دانت ہٹانے کے لئے سرجری کی گئی تھی۔ اس کے دانت کی جڑ کیڑوں سے متاثر تھی۔ اس واقعے سے حکام کو مجرمانہ غفلت کے ذمہ دار افسران کے خلاف تحقیقات شروع کرنی چاہئے تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ چڑیا گھر حکام کا کہنا ہے کہ وہ غیر ملکی ماہرین کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں اور جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی گروپ ”فور پاوز“ کی ایک ٹیم جلد ہی چڑیا گھر کا دورہ کرے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ہتھنی موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ سال ہا سال سے‘ چڑیا گھر کی سیر کے لئے راغب کرنے کے لئے تزئین و آرائش کے عنوان سے ترقیاتی کام کئے گئے لیکن چڑیا گھر کے مکینوں کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے نمائشی اقدامات بے معنی مشق بن کر رہ گئی ہے۔ کسی چڑیا گھر میں اگر جانور غیر محفوظ ہوں اور اُن کی صحت و بھلائی کا خیال نہ رکھا جاتا تو ایسے چڑیا گھر ظالمانہ عقوبت خانے کہلاتے ہیں۔جانوروں کے حقوق کی عالمی تنظیم ’فور پاوز‘ کی جانب سے گزشتہ دورے میں تجویز کیا گیا تھا کہ نور جہاں اور اُس کی ساتھی مدھوبالا کو ملیکا اور سونیا کے ساتھ اکٹھا رکھا جائے۔ دو ہاتھی جو کراچی کے سفاری چڑیا گھر میں ہیں کیونکہ چاروں ہاتھی ایک ہی جھنڈ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اِس سفارش کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مذکورہ ٹیم نے یہ بھی کہا تھا کہ جانوروں کا مسکن نامناسب ہے۔ ہاتھی کو صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لئے کوشش نہیں کی گئی۔ چڑیا گھر
جانوروں‘ خاص طور پر جنگلی جانوروں کے لئے اذیت کے مراکز میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ سال دوہزار سولہ میں کراچی چڑیا گھر میں دو نایاب جنگلی شیروں کو لاحق پراسرار جلدی بیماریوں کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تھیں لیکن وقت کے ساتھ اِس معاملے کو دبا دیا گیا۔ کراچی کا چڑیا گھر خبروں میں رہتا ہے۔ سال دوہزار اکیس میں یہاں کے ایک 9 سالہ باسی ’سفید شیر‘ کی موت ہو گئی تھی۔ وہ نمونیا میں مبتلا تھا۔ پاکستان میں جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھنے کی روایت رہی ہے۔ سڑکوں پر آوارہ کتوں سے لے کر سلاخوں کے پیچھے رکھے گئے نایاب جانوروں تک یا نجی چڑیا گھروں میں جانوروں کے حقوق کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ دنیا بھر میں‘ چڑیا گھر ایسی جگہیں ہوتی ہیں جہاں جانوروں کو مصنوعی نہیں بلکہ اُن کی فطرت کے مطابق قدرتی ماحول فراہم کیا جاتا ہے اور اُن کی دیکھ بھال پر خاص توجہ دی جاتی ہے لیکن قابل مذمت ہے کہ پاکستان کے ’چڑیا گھر‘ ہم زمین جانوروں کے لئے اذیت خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور اِن عقوبت خانوں کے بارے میں متعلقہ حکام کے رویئے (حکمت عملیاں) تبدیل ہونی چاہیئں۔