سیاستدانوں کی ذمہ داری 

ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ملک نے جتنے بھی سیاست دان پیدا کئے وہ سب کرپٹ تھے ان میں کئی ایسے بھی تھے کہ جو بڑے دیانتدار تھے اور جنہوں نے زندگی بھر رزق حلال پر گزارہ کیا ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا انہوں نے سرکاری پیسوں پر اللے تللے نہ کئے قائد اعظم نے کیبنٹ میٹنگ کی صدارت کرنا تھی میٹنگ سے ایک روز قبل حسب معمول ان کے اے ڈی سی نے ان سے جب یہ کہا کہ سر کل صبح میٹنگ کے شرکا ء کے واسطے کافی کا بندوبست کروں یا چائے کا تو بانی پاکستان  نے جواب دیا‘کیوں کیا شرکاء گھر سے صبح  ناشتہ کر کے نہیں آ ئیں گے‘ اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ قائد اعظم کی زیر صدارت ہونے والی میٹنگ کے دوران میٹنگ کی میز پر سادہ پانی جگ میں رکھ دیا جاتا اور اس کے ساتھ گلاس بھی‘اس وقت پاکستان میں معاشی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ ماضی کی اس روش پر موجودہ حکومت بھی عمل پیرا ہو۔ اب آئیے ایک نظر ماضی کے اوراق پر ڈالتے ہیں‘مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کسی زمانے میں برصغیر خاص کر پنجاب اور فرانٹیئر میں جہاں فرنگیوں کو لوہے کے چنے چبوائے تھے اس نے پشاور کے امن عامہ کو بہتر بنانے کے واسطے بھی کئی موثر اقدامات لئے‘وہ اس قدیم محاورے پر سو فیصد یقین رکھتا تھا کہ صرف ڈنڈے سے ہی بگڑے تگڑے لوگوں کو درست کیا جا سکتا ہے‘ وہ جانتا تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے جب اس نے دیکھا کہ فرانٹئیر خصوصاً پشاور میں سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں امن عامہ کا شیرازہ تتر بتر ہو رہا ہے تو اس نے اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک دلیر فوجی افسر Avitabile کی سروسز مستعار لیں اور اسے پشاور کا گورنر  تعینات کیا‘ وہ  بدمعاش اور سماج دشمن عناصر سے کسی قسم کی رعایت روا  نہ رکھتا تھا اس  نے چن چن کر بدقماش افراد کا صفایا کیا‘روزانہ صبح صبح پشاور کے باسی پشاور کی سڑکوں پر بدمعاشوں  کو  بجلی کے کھمبوں کے ساتھ الٹا لٹکتا دیکھتے‘ اس قسم کی بر سر عام پھانسی کی  سخت سزاؤں سے AVITABILE کی پشاور میں کافی دھاک بیٹھ گئی اس اٹالین جنرل کو مقامی لوگ ابو طبیلہ کے نام سے پکارتے تھے  ابو طبیلہ کی مثال ایک mercenary جیسی تھی رنجیت سِنگھ نے اپنے مقبوضہ علاقوں کے انتظامی امور کو بہتر بنانے کیلئے کئی غیر ملکی فوجیوں اور ماہرین کی خدمات مستعار لی تھیں‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سزااور  جزا کے بغیر کبھی بھی اخلاقی طور پر بگڑا ہوا کوئی معاشرہ درست نہیں ہوا وطن عزیز میں یہ جو  مختلف قسم کے جرائم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تو اس کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں جو تاثر عام ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دار جو کچھ بھی کرے وہ تو  کڑی سزا سے صاف صاف بچ نکلتا ہے پیسے کے زور سے اور یا پھر کسی موٹی تگڑی سیاسی سفارش کے بل بوتے پر‘  پرانے پشاوری یوں ہی تو نہیں کہتے کہ آج اس ملک کو ٹھیک کرنے کیلئے کسی ابو طبیلہ کی ضرورت پھر آ ن پڑی ہے۔