(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
لالہ گل پشوری کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب ہم روزانہ صبح سویرے چھ بجے پشاور سے ورسک ڈیم جایا کرتے تھے ہم دونوں وہاں ملازم تھے لالہ گل پشوری ڈانگری پہن کر پاور ہاؤس میں اتر جایا کرتا تھا اور میں دفتر کی لفٹ میں سوار ہو کر اوپر چھٹی منزل پر چلا جاتا تھا کوٹ‘ پتلون اورسستوائی کا زمانہ تھا سو سوا سو روپے تنخواہ میں بھی سوٹ بوٹ پہنا جا سکتا تھا‘ لالہ گل لفٹ آپریٹر تھا اس کا کام سارا دن لفٹ میں بیٹھ کر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جانا ہوتا تھا مگر وہ ایسا ہر گز نہیں کرتا تھا کیونکہ اس زمانے میں بھی ورسک ڈیم اور پاور ہاؤس میں جدید ترین آٹو میٹک لفٹیں کام کرتی تھیں‘ سچی بات ہے کہ لالہ گل کو لفٹ کے بارے میں کچھ پتہ بھی نہ تھا وہ تو وہاں فٹ بال اور عبدالرحمن خان کی وجہ سے ملازم ہوا تھا‘ لالہ گل کے تین ہی شوق تھے فٹ بال‘ سائیکل اور جگت بازی‘ فٹ بال وہ صبح و شام کھیلتاتھا شاہی باغ کے ایک ٹیڑھے‘ میڑھے الٹے سیدھے گراؤنڈ میں شام کو لالہ گل کی حکمرانی ہوتی تھی‘اس فری فار آل فٹ بال میچ کو”غوبل“ کہتے تھے یعنی آندے جاؤ تے لنگدے جاؤ‘ چالیس پچاس طرف یا دوسری طرف ٹکا دیا جاتا تھا اس طرح کھلاڑی نکل کر جاتے بھی رہتے تھے لالہ گل ہر آنے جانے والے ایک آدھ کو آواز کس دیتا”تیری جان سی دور“ یہ اس کا تکیہ کلام تھا اس کے علاوہ بھی وہ جگت بازی کا ماہر تھا ایسی ایسی نادر تشبیہات سوجھتی تھیں کہ جس پر چوٹ پڑتی تھی اس کی بھی طبیعت خوش ہو جاتی تھی‘ لالہ گل بڑے قوی ہیکل جثے اور مضبوط کلے ٹھلے کا آدمی گمان ہوتا تھا نیکر اس کے نچلے بدن پر پھبتا تھا اوپر کا جسم بھی ٹانٹا تھا مگر واجبی آنکھ میں نقص تھا لالہ گل کو فٹ بال کی نانی بھی کہا جاتا تھا نانی وہ کھلاڑی کہلاتا ہے جو کھیلتا کم ہو اور سیاست زیادہ کرتا ہو لالہ گل کے پاس بھی نانیوں کی طرح ہر کھلاڑی کا شجرہ نسب اس کی کمزوریاں‘ عیوب اور دوسرے راز ہوتے تھے وہ جوڑ توڑ کا ماہر بھی تھا کس کھلاڑی کو کس طرح ایک ٹیم سے نکال کر دوسری ٹیم کو مضبوط اور دوسری ٹیم کو کمزور کرنا ہے کون سا کھلاڑی کس پوزیشن پر اچھا کھیلے گا لالہ گل ان تمام معلومات سے مسلح ہوتاتھا یہی وجہ ہے کہ جب ورسک ڈیم کی انتظامیہ نے ایک قومی سطح کی فٹ بال ٹیم بنائی تو ڈیم کے چیف انجینئر عبدالرحمن خان نے ٹیم کے کوچ منیجر ٹرینر بلکہ نانی کیلئے اپنے آپریٹر کا سو کھا کام سونپا گیا لالہ گل نے پھر ایسی ٹیم بنا کر دکھائی کہ جس نے پورے پاکستان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے لالہ گل پر حاضر جوابی ختم تھی فٹ بال کی ٹیم خواندہ ٹیم کے حملے ایک طرف اور لالہ گل کی مدافعت و جارحیت دوسری طرف ایسی چو مکھی لڑائی لڑتے کہ سب کے ہتھیار‘ اوزار اور دار کند کر دیتے‘ تیری جان سی دور کہہ کے جو مخالفوں پر جگت وطنز کے تیروں بھالوں سے چڑھائی کرتے تو وہ پناہ مانگتے نظر آتے۔ لالہ گل میرا پسندیدہ کردار تھا صبح بس میں جاتے اور شام کو آتے وقت لالہ گل کی گل افشانیاں و اہلیان بس کو سرشار کرتی رہتی تھیں ان کے حریف کبھی کبھی شہر کے مشہور جگت بازوں کو ان کے مقابلے کیلئے بھی بٹھا کر لے آتے تھے گھمسان کا رن پڑتا تھا مگر آخری میدان لالہ گل کے ہاتھ میں رہتا تھا لالہ گل کو بڑی پیچکیں بھی پڑتی تھیں۔
گ کے کہنے کے بعد ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں، یہ جنگ کا عمل ہوگا‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں شمالی کوریا کو دکھانا ہوگا کہ وہ یہ انتہائی اشتعال انگیزی جاری نہیں رکھ سکتا‘ لیکن ہمیں یقین نہیں ہے کہ صدر بائیڈن میں ایسا کرنے کی ہمت ہوگی۔سینٹر فار ایشیا پیسیفک اسٹریٹجی کے نائب صدر ڈیوڈ میکسویل نے کہا، ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس ایسے میزائل مناسب جگہ پرنصب نہ ہوں جوبحرالکاہل کے وسط میں نشانہ بنانے والے میزائل کو مار گرائیں‘میکسویل نے مزید کہا کہ اگر یہ امریکہ یا اتحادیوں کے علاقے میں کسی ہدف کو نشانے پر نہیں رکھ رہا ہے، تواسے مار گرانے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ہماری دفاعی صلاحیتیں صرف امریکہ اوراتحادیوں کے علاقوں تک پھیلی ہوئی ہیں‘ اگر شمالی کوریا اسے خط استوا کے نیچے جنوبی بحرالکاہل میں داغتا ہے توامریکہ کی جانب سے میزائل کو روکنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ہوائی کے قریب کے علاقے کو نشانہ بناتا ہے تو اس کے روکنے کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے‘ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم یہ جان سکیں گے کہ آیا کوئی میزائل جوہری لوڈ لے کرجا رہا ہے جب تک کہ ہمارے پاس بہت مستعد انٹیلی جنس نہ ہو۔