رواں برس ’پانی کے عالمی دن (ورلڈ واٹر ڈے)‘ کا موضوع ”تیز رفتار تبدیلی (Accelerating change)“ رکھا گیا۔ اِس عالمی دن کو منانے کا مقصد اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) پر ہوئی پیشرفت کا جائزہ‘ آبی ذخائر کے تحفظ اور پانی کی قدر و اہمیت اُجاگر کرنا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اقوام متحدہ نے سال 2030ء تک کے لئے ’پائیدار ترقیاتی اہداف‘ نامی حکمت عملی وضع کر رکھی ہے جس کے تحت پانی کی ”حفاظت‘ نظم و ضبط اور اِس کی صفائی“ جیسے امور پر توجہ دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پانی سے متعلق ہدف کے حصول پر خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو رہی اور یہ مقررہ ہدف (سال 2030ء) کی ’ڈیڈ لائن‘ کے مقابلے تقریباً چار گنا سست ہے‘ جو قومی اور عالمی سطح پر ’آبی پالیسیوں‘ کو خاطرخواہ توجہ نہ دینا ہے اور جب ہم پاکستان میں پانی کے ذخائر اور وسائل کی حفاظت اور اِن کے دانشمندانہ استعمال کی بات کرتے ہیں تو پیشرفت مزید سست دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے کئی حصوں میں پانی کی قلت ہے‘ کئی حصے سیلاب کے پانی سے متاثر ہیں اور کئی حصوں میں دستیاب پانی کا غیردانشمندانہ استعمال (ضیاع) ہو رہا ہے اور اگر یہی طرزعمل جاری رہا تو ”پانی کی قلت“ پھیلتی چلی جائے گی اور اِس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ بھی بڑھے گا۔ گزشتہ سال پانی سے متعلق ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کو سال 2025ء تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو ہر سال کم از کم ایک ماہ تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 1951ء میں پاکستان کی فی کس سالانہ پانی دستیابی 5650 مکعب میٹر تھی جو 2022ء میں کم ہو کر 908 مکعب میٹر سالانہ رہ گئی ہے اور فی کس دستیاب پانی کی اِس مقدار سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس بات پر صرف تشویش کا اظہار کرنا کافی نہیں ہوگا کہ پاکستان جو کبھی پانی کی ”وافر مقدار“ والا ملک ہوا کرتا تھا لیکن دہائیوں کی بدانتظامی (غلط فیصلوں اور غلط ترجیحات) کی وجہ سے پانی کی قلت کا شکار ہو چکا ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت پانی کی کمی سے دوچار ہے اور اِنہیں ملنے والا پانی کا ناقص معیار بھی ایک مسئلہ ہے۔ ملک کی 90 فیصد زرعی پیداوار بھی کسی نہ کسی طور پانی کی کمی سے متاثر ہے۔ پاکستان اپنے پانیوں کے لئے زیرزمین ذخائر یا دریائے سندھ کے وسائل پر انحصار کرتا ہے۔ پانی کے انہی دو وسائل پر مستقل انحصار کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے۔ دریائے سندھ کا پانی آلودہ ہونے کے ساتھ اِس کی بڑی مقدار ہر سال ضائع بھی ہو رہی ہے۔ زراعت کے لئے پاکستان کو سب سے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آبپاشی کے طریقوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور اِس شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے تو ہر سال آبپاشی کے عمل میں ضائع ہونے والے پانی کی بڑی مقدار کو بچایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف دریائے سندھ کا 78 فیصد پانی بیرونی ذریعے (بھارت) سے آتا ہے جس کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی علی الاعلان یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی منقطع کر دیں
گے۔ اِسی ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھارت نے دریائے چناب و جہلم پر نئے آبی ذخائر (ڈیم) تعمیر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے جس کے بعد سے پاکستان اب تک تین بار سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لئے کوششیں کر چکا ہے لیکن اِن سبھی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور چونکہ بھارت کا جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے تو پاکستان کے لئے پانی کا واحد ذریعہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ہے۔ بھارت پانی کو جغرافیائی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اِسے روکنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ملک دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے یکساں اہم ہے کہ پاکستان اپنے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور گنجائش کو بہتر بنائے اور اِس مقصد کے لئے ’میگا ڈیم‘ بنانا ہی اِس مسئلے کا پائیدار حل ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر خشک سالی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کو اِس موسمیاتی تبدیلی کے تیزی سے اثرانداز ہونے کی صلاحیت اور پھیلاؤ کو سمجھتے ہوئے اپنے پانیوں کی حفاظت کرنی چاہئے اگرچہ پاکستان کے آبی ذخائر کی حفاظت کے ساتھ ’ہائیڈرو الیکٹرک (پن بجلی) کے منصوبے‘ بھی ضروری ہیں لیکن پاکستان کی بنیادی توجہ پانی کے تحفظ اور اِس کے مؤثر استعمال پر ہونی چاہئے۔ زیر زمین پانی کے گرتے ہوئے وسائل کو مصنوعی طور پر ری چارج کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ کام حکومت کم لاگت کے ذریعے کر سکتی ہے چونکہ سیلاب اور خشک سالی جیسے موسمیاتی اثرات و واقعات زیادہ کثرت اور شدت سے ظاہر ہو رہے ہیں لہٰذا پانی کے قومی بحران سے نمٹنے کے لئے حسب حال بہتر و ضروری اور بلاتاخیر حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔