قصہ خوانی سے ہشت نگری تک 

جو قریب کی منازل تھیں وہ دور چلی گئی ہیں اور جو دور پار تھیں وہ نزدیک چلی آئی ہیں۔پہلے پشاور سے لاہور تک جانا بھی کوہِ گراں تھا‘ ساری رات بس میں بیٹھے رہو اور صبح کہیں جا کر اترومگر اب فاصلے سمٹ گئے ہیں کیونکہ نت نئی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے یہ گئے اور آئے‘ پہلے  پشاور سے راولپنڈی جانا بھی ایک بھرپور مسافت تھی سڑکیں خراب تھیں اب تو موٹر وے ہے کہ اگر گاڑی کے ڈائس پر پانی کا گلاس رکھو تو اس میں سے محلول چھلک کر باہر گرنے نہ پائے  اتنے رواں دواں اور نرم و آسودہ راستے ہیں پھر بسیں اورکوچیں اور گاڑیاں بھی تو ایسی ایجاد ہو چکی ہیں کہ جن میں سفر کرنا یوں ہے کہ جیسے اپنے گھر کی بیٹھک میں صوفہ پر بیٹھے ہوں‘مگر ایک زمانہ تھا جب یہی مولوی جی ہسپتال پشاور سرکاری بسوں کا اڈہ تھا‘جہاں ایبٹ آباد اور راولپنڈی وغیرہ کے لئے بس تیار کھڑی ہوتی تھی پنڈی جاناہو تو چار گھنٹے کا سفر تھا‘پھرکھٹارابسیں ہوتی تھیں لہراتی کھڑکھڑاتی آہستہ آہستہ چلتیں اور راستے بھر میں جیسے کھانستی ہوئی جاتیں‘بیچ راستے کے کہیں سٹاپ آتا تو کچھ دیر وہاں رک جاتیں پھر اڈے پر بس کھڑی ہوتی تھی تو بسوں میں سوا رہونے کے لوگ ہی نہ تھے‘ اچھی خاصی دیر میں بس بھر جاتی تھی تب پشاور سے نکلنے کو گیئر بدلتی‘اب تو وہ حال نہیں اب تو پل جھل میں سوار ہوئے اور گاڑی روانہ ہوگئی بلکہ اڈہ پر جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک ہمارا ہی انتظار تھا‘ایک سواری کم تھی جب ہم بیٹھ گئے تو بس روانہ ہوگئی‘ کراچی بھی  جائیں تو یہی جلدی کامعاملہ ہے مسافر ہیں کہ جن سے بسیں اور کوچیں لبالب بھری پڑی ہیں‘پھر ایک جی ٹی ایس (جنرل ٹرانسپورٹ سروس) ہی تو باقی نہیں رہی اب تو ہر اڈہ سے ہر جگہ جانے کے لئے بسیں اور کوچیں تیار کھڑی ہوتی ہیں‘اگر آپ آئے یا نہ آئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ملک کے طول وعرض میں جانے کے لئے ہر آدمی پر تول رہا ہے‘وہ جلد ازجلد سوار ہونا چاہتا ہے تاکہ جلد نکلے اور جلد اپنی منزل تک پہنچ جائے۔قصہ خوانی سے ہشت نگری تک جانا ہوا  ہم پیدل نہیں تھے بلکہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے‘دو ایک دن پہلے شام سے پہلے کی بات ہے۔مگر پورے ایک گھنٹے میں اتنا معمولی سا فاصلہ طے کر سکے کیونکہ رش کا وہ عالم تھا کہ کسی کا دل خوش ہوتا ہوگا جو اس بھیڑ بھاڑ میں گھسا ہوا تھا مگر ہمارا تو دل تنگ ہونے لگا شہر سے باہر آکر رہائش کریں تو زندگی کو گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے مگر اندرون شہر تو بندہ خود دنیا ہی سی گزر جاتا ہے او رمعلوم نہیں ہوپاتا  تیزی اب اتنی بھی اچھی نہیں کہ کسی کو کچھ معلوم ہی نہ ہو کہ کیا ہوا کیا نہیں ہوا۔پھر ایسے میں دفتر میں ورک لوڈہو اور پھر ٹور ہوں جو مجبوری میں کرنا ہوتے ہیں۔ جی چاہے نہ چاہے مگر ڈیلیوری کے لئے اور اگراہی کے لئے لاکھوں کے حسابات وصول کرنے کو ایک دن بھی نہیں بلکہ روزانہ جانا ہوتو آپ ہی بتلائیے کہ ایسی نوکری کا بندہ کیا کرے۔گھر آئے گا تو چپلیاں اتارے گا اور وہیں بیٹھے بیٹھے سویا ہوگا۔ گھر والے کہیں گے کھانا کھا لو اور پھر اندر کمرے میں جا کر سو جاؤ۔ ہائے بیچارا تھکا ہارا ہوا ہے۔اب تو ایسی جھاڑو پھری ہے کہ کمپنیاں بند ہو رہی ہیں‘ بیوٹی پارلر تو جیسے تباہی کی طرف مائل ہیں‘ جب کسی کے پاس پانچ روٹیوں کے پیسے نہ ہوں گے تو وہ بیوٹی پارلر جا کر دو ہزار کا کم  از کم والا کاسمیٹک ٹچ کیسے کروائے گا پھر اس شہر میں ٹریفک کا جو بد حال ہے وہ تو ناقابلِ بیان بھی نہیں  سب کو سب پتا ہے۔ جانے یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں‘ایک ہو ہاکا عالم ہے  کسی کو کسی دوسرے کی کوئی فکر نہیں بھکاری ہیں تو ان سے بھی شہر بھرا پڑا ہے  کہیں سکھ کا سانس لیں ایسا ممکن نہیں رہا۔قصہ خوانی سے ہشت نگری تک جتنی دیر میں ہم پہنچے اتنی دیر میں تو ہوائی جہاز گھنٹہ کے اندر اندر پشاور سے کراچی پہنچ جاتا ہے پھر اتنی دیر میں تو موٹر وے سے جاؤ تو بندہ اسلام آباد کے قریب ہوجاتا ہے مگر ہمارے شہر میں ایک بازارسے دوسرے بازارتک جاتے ہوئے بھی بندہ جیسے اپنی عمر گزار لیتا ہے‘ایک ابتری کا ماحول ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہم آگے جا رہے ہیں  کہ پیچھے آ رہے ہیں۔ کیا یہ بند گلی کا سفر تو نہیں کہ آگے گئے تو معلوم ہوا کہ آگے راستہ بند ہے۔یہ تو مستقبل کی راہیں ہیں ان کو بند نہیں ہونا چاہئے۔