موسمیاتی تبدیلی

موسم بہار کو  تو اب کے برس پوری طرح  انجواے نہ کیا جا سکا کہ اسے  تو جاڑا ُچاٹ گیااور اگر بالفرض محال اپریل کے اواخر میں اس کے کچھ دن بچتے  بھی ہیں  تو ان کو  موسم گرما کھا جائے گا۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی تو یہ ہے کہ ماہ رمضان کا تقریبا ًتقریباً سارا مہینہ بارشوں کی نذرہو جائے گا۔ امسال مون سون کی بارشیں بھی اپنا جوبن دکھلائیں گی اور اس کے بعد گرمی کی حدت اتنی شدیدہوگی کہ اس میں وسیع پیمانے پر گلیشئرز کے پگھلنے کے خدشات ہیں جس سے  وطن عزیز کے کئی علاقے شدید سیلابوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔اب بھی  وقت ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے پانی کی ان  قدرتی گزر گاہوں کی صفائی کا بندوبست کر لیں کہ جن کے اندر یا جن کے نزدیکی اطراف میں یار لوگوں نے عمارتیں کھڑی کر کے پانی کے قدرتی بہاؤ کا رستہ روک رکھا ہے کہ اس سے بہت بڑی بربادی کا خطرہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی  نئی کیفیات کو اگر موثر انداز میں نہ روکا گیا تو اس سے  ہر برس اس ملک کے مختلف موسم متاثر ہوتے رہیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے  تمام دنیا کے ممالک کو یکمشت ہو کر نبرد آزما ہونا پڑے گا۔دیکھا جائے توامیر ممالک زیادہ آ لودگی پھیلا رہے ہیں اور پاکستان سمیت دیگر درجنوں  ترقی پذیر ممالک اس آلودگی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مطابق آب وہوا میں تبدیلی کا بم پھٹنے کے قریب ہے۔ انسانیت برف کی ایک پتلی تہہ پر کھڑی ہے جو پگھل رہی ہے۔ ہم اب بھی کرہ ارض کو اوسط 2 درجے مزید کم ہونے  سے بچا سکتے ہیں اگر بعض اقدامات فوری طور پر اُٹھا لئے جائیں کہ جن کی نشان دہی ماہریں اپنی رپورٹوں میں کر چکے ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے اس ضمن میں اگر اقوام متحدہ کے توسط سے مالی طور پر آ سودہ ممالک نے فوری طور پر غریب ملکوں کی مالی امداد نہ کی تو کرہ ارض پر آباد ایک بڑی انسانی آبادی صفحہِ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ اس ماحولیاتی آلودگی کی جو وجوہات ہیں ان کا سدباب کرنے کیلئے جو اقدامات اٹھانے ضروری ہیں ان پر ایک کثیر رقم کا خرچہ اٹھتا ہے جو پاکستان جیسا مالی طور پر کمزور ملک ازخود نہیں اٹھا سکتا جب تک کہ اسے عالمی سطح پر فنڈنگ نہ کی جائے۔ جس طرح دوسری جنگ کے بعد تباہ شدہ برطانیہ کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے امریکہ نے مارشل پلان بنایا تھا بالکل اسی طرح آج اقوام متحدہ کو ایک ٹھوس قدم لے کر دنیا کو خصوصا ًغریب ممالک کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے ایک ریلیف پیکج کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ادھر سپر پاورز کے درمیان کشیدگی بدستور  برقرار ہے۔ روس کے کیف پر میزائل کے  حملے سے 9 افراد ہلاک اور  30 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ چین اور امریکہ میں موجود ٹینشن  میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ایک خبر کے مطابق چین نے امریکی بحری جہاز کو اپنی سمندری حدود سے نکال دیا ہے جبکہ امریکہ نے اس خبر کی صداقت سے انکار کیا ہے اور کہاہے کہ جہاز اب بھی معمول کے سفر پر ہے۔ یاد رہے کہ بحیرہ چین کے ایک بڑے حصے کی ملکیت پر چین کا دعوی ہے کہ جس کے ذریعے امریکہ اربوں ڈالرز کی ہر سال تجارت کرتاہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا محاذ صرف بحیرہ چین تک محدودنہیں بلکہ تائیوان کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اس کے ساتھ ساتھ چونکہ چین نے روس کا کھل کر ساتھ دینے کی پالیسی اپنائی ہے اس پر بھی امریکہ اور اس کے اتحادی سیخ پا ہیں۔