1970ء کی دہائی میں ماہرین معاشیات کا خیال تھا کہ افراط زر بنیادی طور پر ’مونیٹرازم‘ کی وجہ سے ہے یعنی عوام کے پاس پیسہ زیادہ ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مہنگائی (افراط زر) پر قابو پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سرمائے کی گردش کو کنٹرول کیا جائے۔ اس روایتی یا نظریاتی منطق پر عمل کرتے ہوئے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ”انٹرسٹ ریٹ“ میں اضافہ کیا ہے اور مزید اضافہ آئندہ ماہ (اپریل دوہزارتئیس) کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔ گزشتہ سال (مارچ 2022ء سے مارچ 2023ء) کے دوران انٹرسٹ ریٹ 11.37 فیصد سے بڑھا 75.9 فیصد پوائنٹس کا نمایاں اضافہ کیا تاہم اسی عرصے کے دوران افراط زر کی شرح 12.70فیصد سے بڑھ کر 31.5فیصد ہوگئی۔ گزشتہ سال کی طرح پاکستان نے انٹرسٹ ریٹ میں بیس فیصد کا غیر معمولی اضافہ کر کے تمام علاقائی ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔انٹرسٹ ریٹ میں نمایاں اضافے کے باوجود افراط زر کی شرح زیادہ ہے‘ جس سے مہنگائی پر قابو پانے میں مدد نہیں مل رہی اور ہر حکمت عملی و تدبیر ناکام و ناکافی ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔سب سے پہلے تو اِس تصور سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ افراط زر (مہنگائی) کو کنٹرول کرنے کے لئے ہمیشہ مؤثر پالیسی اقدام ثابت ہوتاہے کیونکہ مہنگائی کی ایک وجہ عالمی سطح پر (بیرون ملک) ہونے والی تبدیلیاں بھی ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے اجناس اور ایندھن کی فراہمی کا نظام (سپلائی چین) اور مارکیٹ و منڈی میں قائم توازن متاثر ہوا ہے جبکہ روس پر حالیہ عالمی تجارتی پابندیوں کی وجہ سے اِس سپلائی چین کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے جس کے نتیجے میں سازوسامان اور اجناس کی قلت جو پہلے ہی سے موجود تھی اُس کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے لہٰذا اس وقت ہم جس افراط زر کا سامنا کر رہے ہیں اُس کی وجہ یہ ہے کہ نقل و حمل اور تیاری و پیداواری اخراجات (لاگت) میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ ہماری ’مانیٹری پالیسی‘ اس قسم کی قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کا مناسب طریقہ یا حل نہیں رکھتی۔ دوسرا‘ درآمدی افراط زر قیمتوں میں اضافے کا باعث ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں کے ساتھ بین الاقوامی قرض دینے والے اداروں سے قرضے معیشت پر دباؤ ڈال رہے ہیں جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ ہو رہی ہے۔ نتیجتاً اگرچہ عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتیں نسبتاً مستحکم ہیں لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی ہر شعبہئ زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان کی غیر رسمی معیشت جو کہ ہمارے ملک کی ریگولیٹڈ معیشت کا چالیس فیصد ہے‘ پالیسی ریٹ سے ممکنہ فوائد حاصل کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔ پاکستان کی معیشت کا مالیاتی شعبہ کمزور ہے یہاں صرف سات فیصد کاروبار قرض دینے والے مالیاتی اداروں کے ذریعے روایتی فنڈنگ تک رسائی رکھتا ہے جبکہ چین میں پچیس فیصد اور بنگلہ دیش میں یہ شرح چونتیس فیصد ہے۔ وہ ممالک جو چھوٹے کاروبار کے لئے آسان شرائط اور کم شرح سود پر زیادہ صارفین کو قرض دے رہے ہیں اُن کی معیشت بہتر ہے اور پاکستان جیسے وہ ممالک جو انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ کر کے قرضوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اُن کی معیشت سکڑ رہی ہے۔ معاشی استحکام کے حصول میں ’پالیسی ریٹ کے غیر موثر ہونے کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں سب زیادہ قرض حکومت کمرشل بینکوں سے حاصل کرتی ہے۔ یہ کسی بھی صورت مثبت معاشی صورتحال نہیں کیونکہ انٹرسٹ ریٹ میں اضافے سے مہنگائی میں کمی کی توقعات رکھنے والے اِس میں مزید اضافہ کرنے کا سوچ رہے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو بھاری بھرکم ادائیگیوں کی وجہ سے سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوگا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ بجٹ خسارہ کم (ایڈجسٹ) کرنے کے لئے عوام پر اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے جس سے افراط زر (مہنگائی) میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب تک بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات نافذ نہیں کی جاتیں تب تک پاکستان ”خوفناک معاشی چکر“ میں پھنسا رہے گا۔