اپریل 1980 میں ہم ننھیال کے گاں محب بانڈہ مردان میں پرائمری تعلیم مکمل کرکے اپنے آبائی گاؤں کاٹلنگ آگئے۔دو تین مہینوں بعد ماہِ رمضان آیا۔ سخت گرمی تھی اور روزے بڑے سخت ہوتے تھے۔ عموماً گیارہ بارہ بجے ہی راستے خالی ہوجاتے اور گھر کے بڑے افراد کمروں کے دروازے بند کردیتے تھے۔ بچے بھی مجبوراً اندر بند کردیئے جاتے اور انہیں خاموش رہنے کو کہا جاتا تھا۔تب عموما ًگھر کچے ہوتے تھے جن کی چھتیں لکڑی کے شہتیر اور کڑیوں سے بنی ہوتی تھیں۔ ان چھتوں اور دیواروں کی مٹی، گوبر اور بھوسہ سے بنے گارے سے لیپائی کی جاتی تھی۔ یہ کمرے خاصے ٹھنڈے ہوتے اور ان میں عصر تک رہ کر آرام کیا جاتا۔بزرگوں سے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ہمارے محلے۔۔اوڈیگرام۔۔ کی مسجد میں کئی دہائیاں قبل ایک تہہ خانہ بھی بنایا گیا تھا جس میں محلے بھر کے لوگ ظہر کی نماز سے پہلے اور بعد میں عصر تک پڑے رہتے اور گرمی کا مقابلہ کرتے تھے‘ تب بجلی کے پنکھے تھے نہ روم کولر۔ اکثر لوگ ہتھ پنکھوں سے ہی خود کو ہوا دیتے تھے۔ ہاتھوں سے بنے اور چلائے جانے ان پنکھوں کے گرد خوب صورت نقش ونگار بنائے جاتے اور رنگین کپڑے لگے ہوتے تھے۔افطاری کیلئے گڑ، تخم ملنگاں، لیموں اور سوات کے پہاڑوں سے لائے گئے قدرتی برف سے شربت تیار کیا جاتا اور پیاس سے نڈھال روزہ دار شام سے پہلے ہی چارپائیوں پر میز کے گرد بیٹھ جاتے۔اس دوران کوئی بچہ بات کرتا تو اس کی شامت آجاتی تھی۔ چناں چہ عموما ًمائیں بچوں کو مار سے بچانے کیلئے پہلے ہی باہر بھیج دیتی تھیں۔تب لاوڈ سپیکر بہت کم مساجد میں لگے ہوتے تھے۔ محلے کے لڑکے راستے میں دور اذان کی آواز کی طرف کان لگائے منتظر رہتے۔ہمارے ہاتھوں میں چھوٹے پتھر ہوتے۔ جیسے ہی دور کہیں سے اذان کی آواز سنائی دیتی تو ہم لوہے سے بنے بجلی کے کھمبوں کو ان پتھروں کی مدد سے بجانا شروع کردیتے تھے اور پھر گھروں کی طرف دوڑ لگادیتے۔سب بچوں کی طرح ہمیں بھی روزے رکھنے اور یوں خود کو بڑا ثابت کرنے کی جلدی تھی۔ پہلا روزہ ہم نے دس سال کی عمر میں رکھا تھا۔ اگلے سال دو تین رکھے۔ اس کے بعد ہر سال رفتہ رفتہ ہمارے روزوں کی تعداد بڑھتی رہی یہاں تک کہ سب روزے رکھنے واجب ہوگئے۔آخری سال ہم نے پندرہ روزے رکھے تھے اور اگلے سال، 1984میں, جب پورے روزے رکھنے واجب ہوگئے تو سخت گرمی کا موسم تھا۔ شدید گرمی میں روزے آئے تو شدید پیاس لگنی لازمی تھی اور افطار میں گڑ کا ٹھنڈا شربت کھانے سے بھی زیادہ لازم ہوتا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ ریفریجریٹر عام دستیاب نہ تھے اور برف کے کارخانے رمضان میں برف کی طلب پورے کرنے سے قاصر تھے۔چنانچہ یاد پڑتا ہے کہ ان دنوں گاؤں کے بازار میں قدرتی برف کے ٹرک آتے تھے جو اس وقت لوگ بتاتے تھے، ہمارے پڑوسی ضلع سوات سے لائے جاتے تھے۔ اس برف کے حصول پر اکثر لوگ لڑ بھی لیتے تھے۔ جب ایسا ہوتا یا بھیڑ بہت زیادہ ہوجاتی تو ٹرک کو ادھر سے بھگاکر بازار میں کسی اور جگہ کھڑا کرنے کیلئے بھگایا جاتا۔ زبردست سماں ہوتا جب ٹرک آگے ہوتا اور لوگ پیچھے بھاگ رہے ہوتے تھے۔ان کے اردگرد بڑے بڑے ترپال لپیٹے ہوتے تھے۔ ایک دو روپے سے اس قدرتی برف کا اچھا خاصا بڑا، تقریبا ڈیڑھ فٹ، ٹکڑا مل جاتا تھا جو گھر بھر کیلئے کافی ہوتا تھا۔ اس کا ذائقہ مشینی برف سے جدا اور بہت اچھا ہوتا تھا۔ اس کی مکمل شفاف اور سفید رنگت بڑی دیدہ زیب ہوتی۔کیا زبردست وقت تھا۔ چیزیں سستی اور قدرتی تھیں اور لوگ بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔