سیاحتی مقاما ت پر جانے کی ضرورت نہیں 

کھڑکیاں دروازے کھول دو۔پچھلے دنوں یہی بات ہر گھر میں کہی جاتی تھی۔کیونکہ گرمی نے جنگ کے نقارے پر چوٹ دی تھی۔موسم گرم ہونے لگا تھا۔ پنکھے چل نکلے تھے۔ٹھنڈا پانی دل کو اچھا لگنے تھا۔مگر اب دوبارہ موسمیاتی تبدیلیو ں کی تباہ کاریوں نے ایک اور اچھی جھلک دکھلائی ہے۔ اب تویہ حکم نامے جاری ہو چکے ہیں کہ کھڑکیاں دروازے بند کرو ہوا آ رہی ہے۔یہی ہوا ہے جس کے جھونکوں کی خاطر ہم نے دیوار پیچھے درختوں کی باڑمیں سے چھن کر آنے والی یخ بستہ ہوا کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے روشن دان کو سفید پلاسٹک شیٹ سے ڈھانپ دیا تھا۔بعد میں جب کمرے کے اندر گرمی کے آثار پیدا ہوئے او رمچھروں کی غوں غاں تیز ہونے لگی تو ہم نے جبس دم کو دور کرنے کی خاطر وہی پلاسٹک نوچ کر اُتار ڈالے۔مگر ان دنوں پھر پشیمانی کا عالم ہے کہ وہ مچھر اپنی کارستانی کر کے فی الحال غائب ہیں اور باران نے وہ دھوم مچائی ہے کہ دل خوش کر دیا۔ اب سوچتے ہیں روشن دان سے کیوں کاغذ اتارے تھے۔کیونکہ لگتا ہے کہ اب سردی پھر سے لوٹ آئی ہے۔وہاں موسمیاتی محکمہ کے ایس ایم ایس اور فون وصول ہو رہے ہیں۔ بلکہ پورے پاکستان میں یہی حال ہے۔موسم نے وہ غلبہ کیا اور دھاوا بولا کہ جہاں میدانی علاقوں میں دھوپ نے کڑوے کسیلے کوڑے برسانے تھے وہا ں اپنی تپش کے الٹ اب اولے برسانا شروع کر دیئے ہیں۔موٹے موٹے اولے جو کبھی دیکھے نہ سنے۔کتنی کاروں کی چھتیں داغدار ہوگئیں اور ان  کی مارکیٹ ویلیوو ایک دم سے کھڑے کھڑے نیچے آ رہی۔ موسم کا حال سنانے والے کہہ رہے ہیں کہ ابھی پشاور میں بھی اولے برسیں گے۔ابھی پورا اپریل کا مہینہ اسی طرح گزرے گا او رروزے تو بہت شاندار انداز سے روزہ داروں کو ایک اچھا موسمیاتی ماحول دے کر چلے جائیں گے۔بلکہ جو سیاحتی مقامات کو جاتے ہیں اور ان دنوں سردی کے مزے لوٹنے کی کوشش میں ہیں ان کو ون ونڈو کے باہر ان کی دہلیز پر سرد موسم کی آبیاری کا تحفہ ملاہے۔کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں بس گھر میں بیٹھو اگر گھر میں چمن ہے تو کرسیاں بچھا کر چارپائیاں ڈال کر درمیان میں میز ہو اور سردی کی برفیلی رُت سے لطف اندوز ہوا جائے۔ جانے یہ کس نے اوپر ٹینکی کے پانی میں برف کی سلیں لا کر ڈال دی ہیں۔وہ کھڑکیوں اور دروازے کے لوہے کے کنڈے جو گرم ہونا چاہتے تھے اب پھر سے ان کو ہاتھ لگاؤ تو سرد ہو ئے جاتے ہیں۔ یہ تو تحفہ ہے ہزار موسمیاتی تبدیلی کا بُرا الارم ہو مگر ہمارے لئے جو گرمی کے موسم کے آنے سے ڈرتے ہیں قدرت کی مہربانی ہے۔ سحری کو اٹھے کہ شاید بارش تھم چلی ہو مگر باہر خشک جامے میں نکلے تو واپس گیلے کپڑوں میں لوٹے۔کبھی بارش اور کبھی دھوپ چھاؤں کا کھیل جاری ہے۔گرم کوٹیاں جو سنبھالی ہیں وہ اب کون دوبارہ سے بستروں کی بڑی پیٹیوں کے کنگ سائز ڈھکن کھول کر نیچے سے کرید کر نکالے۔ سو جو باہر ایک آدھ لٹکی کوٹی ہے وہی اُتار کر پہن رہے ہیں۔ اگر نہ ہوا توگھر کے دوسرے فرد سے لے پہن لو۔وہ جانے اور اس کا کام آپ تو مزے کریں فی الحال۔کیونکہ انسان کی عادت ہے  کہ وہ سُستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔کون اب اتنی ترتیب سے سجائی سیٹنگ کو بستروں کے بڑے بکسوں میں الٹ پلٹ کر کے بے ترتیبی سے اندر دبائی کوٹیاں نکالے۔کیا پتا اچانک پھر سے گرمی کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگے۔اچھا یہ بھی ہے کہ جو پچھلے بھاری بھرکم اور بوجھل بجلی کے بل تھے جو گرمی میں جان کر زیادہ بھیجے گئے اور اب جن کو قسطوں میں جمع کروانے کی سزا بھگت رہے ہیں وہ تو اس سردی کے موسم میں جو اپریل تک جائے گی کم نرخوں میں قابلِ ادائیگی ہوں گے۔چلو کافی سے زیادہ بوجھ اُتر جائے گا۔مگر سردی کے بڑھنے کے ساتھ جو بچی کھچی گیس چولھوں میں روشن تھی وہ عین افطاری کے عالم میں غائب ہو جاتی ہے۔بجلی غیر اعلانیہ طور پر جانے لگی ہے۔حالانکہ بجلی کے کرتا دھرتاؤ نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شیڈول چاک آؤٹ کر رکھا ہے۔ مگر اس پرعمل درآمد کون کرے۔موسم اچھاہوا توجو روزوں میں دن کو سونے کے عادی ہیں وہ تو مزید خراٹے لیں گے اور بھی دیر سے اٹھیں گے۔کیونکہ یہ تو پہلے ہی سوئی ہوئی قوم ہے اس کو اور زیادہ نیند کرنے کا بہانہ مل گیا ہے۔موسم بھی اپنے وقت پرمزا کرتا ہے مگر اب یہ ترتیب کچھ سالوں سے بے ترکیبی کا شکارہے۔گلیشئر پگھل رہے ہیں جس کے کارن بے وقت کے سیلابوں کا ڈر ہے۔جانے کیا ہونے والاہے۔دو سال پہلے اپریل کے مہینے میں مری میں برف باری ہوئی تھی۔عوام تو ششدر رہ گئے تھے او رجوق در جوق ان پہاڑی مقامات کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے تھے۔یہ نہ ہو پشاور میں بھی برف باری ہونے لگے۔ پھر عجب کیا ہے۔قدرت کے نظارے ہیں۔کچھ بھی اچھا ہو سکتا ہے۔کیونکہ ان دنوں اولے پڑنے کا تو کہا گیا ہے۔مگر برف باری ہوجائے کیا عجب ہے۔