پشاور کا جی ٹی روڈ

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کی تحریروں کی انفرادیت ان کا دلچسپ اسلوب ہے جہاں وہ کسی بھی مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی تاریخ اور پس منظر کے واقعات کو بھی موضوع بحث بنا لیتے ہیں،یوں قاری کو ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ایک مقام پر وہ جی ٹی روڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پشاور سے جانے والی جی ٹی روڈ کے نام سے سڑک کب بنی ‘کس نے بنائی اور کیوں؟قدیم جرنیلی سڑک سے ذرا ہٹ کر جدید اسلام آباد میں نامور تاریخ داں ڈاکٹر احمد حسن دانی اس موضوع اور مضمون کے بڑے دانا تھے ان سے یہی باتیں کررہا تھا کہ اس سڑک کی تعمیر میں کیا حکمت تھی؟ غالباً ہندوکش کی طرف سے آنے والوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اور ہندوستان کے دفاع کی خاطر اسے بنایا گیا ہوگا دانی صاحب نے کہا آپ نے یہ بجا فرمایا کہ پہلا مقصد تو دفاع ہی تھادوسرا جو اہم مقصد وہ تجارت تھی قدیم زمانے سے ہندوستان میں جو چیزیں پیدا ہوتی تھےں یا جو صنعتیں وہاں قائم تھےں ان کا مال خشکی کے راستے جایا کرتا تھا قدیم زمانے میں ہندوستان کا سب سے زیادہ مال اس خشکی کے راستے مغرب کی طرف جایا کرتا تھا اس کو فروغ دینے کے لئے شیر شاہ نے یہ سڑک بنائی اس کے علاوہ دانی صاحب نے بتایا کہ اس زمانے میں سمندر کے راستے سفر کرنے کا زیادہ رواج نہےں تھا وسطی ایشیاءاور ایران سے لوگ خشکی ہی کے راستے آتے تھے یا اسی راستے لوگ وہاں جاتے تھے اس وقت کی سواریاں مختلف تھیں لوگ ہاتھی پر یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے بیشمار لوگ پیدل چلتے تھے ان کے لئے ضروری تھا کہ نہ صرف سڑک ہو بلکہ راستے میں کھانے پینے اور ٹھہرنے کا انتظام ہو چنانچہ کنویں باولیاں‘مسجدیں اور سرائیں بنوائی جاتی تھےں سرائے دو کام آتی تھی ایک تو ٹھہرنے کے اور دوسرے کاروبار اور لین دین کے اوقت کی سرائے میں بڑے بڑے سودے طے ہوتے تھے اور بھاری لین دین ہوتا تھا اسی لئے شیرشاہ نے یہ سڑک بنوائی تاکہ بنگال میں سنار گاﺅں سے لے کر جو کہ مشرق میں اس کا صدر مقام تھا دریائے نیلاب تک جو اس کے ملک کی آخری حد تھی آسانی سے آیا جایا کریں عام لوگ بھی ‘تاجر بھی اور فوجیں بھی۔“اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ماضی میں جھانکنے اور حالات و واقعات کی کھوج لگانے کی اہمیت ہے ۔ رضا علی عابدی جیسے لکھاریوں کو اس حقیقت کا احساس بھی تھا اور انہوںنے اس کا حق بھی ادا کیا ہے۔رضا علی عابدی کی تحریروں کا خاصہ ہی یہ ہے کہ وہ قدیم آثار کے متعلق معلومات کچھ اس انداز میں قارئین کی نذر کرتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور معلومات کی ایک نئی دنیا پڑھنے والے پر آشکارہ ہوتی ہے۔