آبی وسائل کی حفاظت

اس سال کے پانی کے عالمی دن کا تھیم 'ایکسلریٹنگ چینج' تھا - جس کا مقصد پائیدار ترقی کے ہدف (SDG) 6 کے حصول میں دنیا بھر میں پیش رفت کی کمی کو اُجاگر کرنا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کے مطابق، اس ہدف پر پیش رفت 2030 کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کی ضرورت سے چار گنا کم ہے، جو کہ قومی اور عالمی آبی پالیسیوں کی کمزوری ہے۔ مزید برآں، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان میں، پیش رفت کا سلسلہ بہت سست رہا ہے۔ درحقیقت یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ ہم نے کوئی پیش رفت نہیں کی اور پانی کی کمی کی طرف مزید کھسک رہے ہیں۔ ابھی پچھلے سال، پانی کے شعبے کے ماہرین نے ریکارڈ پر یہ دعوی کیا کہ پاکستان کو 2025 تک پانی کی مکمل کمی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 80 فیصد آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ہر سال اس میں کمی واقع ہو رہی ہے اورکم از کم ہماری فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5650 کیوبک میٹر سالانہ سے کم ہو کر 2022 تک 908 کیوبک میٹر سالانہ رہ گئی ہے۔ان حقائق کو دیکھتے ہوئے اور ہمارے لوگوں کو روزمرہ کے پانی کے مسائل جن کا سامنا ہے، یہ بات حیران کن ہے کہ پاکستان پہلے پانی سے بھرپور ملک تھا اور کئی دہائیوں کی عدم توجہی کے باعث پانی کی قلت کا شکار ہو گیا ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کے مطابق، پاکستانیوں کی ایک بھاری اکثریت ہماری 90 فیصد زرعی پیداوار کے ساتھ، پانی کے بنیادی یا واحد ذریعہ کے طور پر دریائے سندھ کے طاس کے زمینی اور سطحی پانی پر انحصار کرتی ہے۔ پانی کے کسی ایک ذریعہ پر یہ حد سے زیادہ انحصار قلت کے مسئلے کا ایک بڑا سبب ہے، جس میں دریائے سندھ کا طاس دنیا میں دوسرے سب سے زیادہ دباﺅ والے زیر زمین پانی کے ذخائر کے طور پر درجہ بندی میں آتا ہے، جبکہ پاکستان پانی کے اخراج کے تناسب کے لحاظ سے مجموعی طور پر 160 ویں نمبر پر ہے۔ پانی کے وسائل کے استعمال میں زراعت ملک میں اب تک پانی کا سب سے بڑا صارف ہے اور آبپاشی کے طریقوں کو جدید بنانے میں ہماری سستی ہمیں مہنگی پڑ رہی ہے۔ معاملات اس لئے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں کہ دریائے سندھ ہماری سرحدوں کے باہر سے نکلتا ہے اور ہمارا 78 فیصد پانی پاکستان کے باہر سے آتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور اس کی سخت گیر حکومت اب فائدہ اٹھانے کے درپے ہے، وزیر اعظم نریندر مودی نے ہماری سپلائی منقطع کرنے اور دریائے چناب اور جہلم کے کنارے نئے بھارتی ڈیموں کی تعمیر کی دھمکی دے کر پاکستان کو انڈس واٹر ٹریٹی کے تنازعے پر آواز اٹھانے پر مجبور کیا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان بھارت کے ان منصوبوں کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے جو سندھ طاس منصوبے کی مخالفت میں آتے ہیں ، تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور جیسا کہ ہندوستان کا جنگی جنون اور جارحامہ رویہ بڑھتا جا رہا ہے ہمارے پانی کا واحد ذریعہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ہے، پانی کو جغرافیائی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا یقیناناقابل قبول ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہم پر کچھ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ جو پانی ہمارے پاس دستیاب ہے اس کے حوالے سے ہمیں بنیادی طور پر اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ میگا ڈیم ہی اس مسئلے کا جواب ہیں۔خشک سالی کے بڑھتے ہوئے واقعات جو عالمی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہوں گے ہمیں مزید ڈیموں کی تعمیر سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ کچھ پن بجلی کے منصوبے ضروری ہیں، پاکستان کی بنیادی توجہ تحفظ اور موثر استعمال پر ہونی چاہئے۔ زمینی پانی کے ختم ہونے والے وسائل کو مصنوعی طریقے سے ری چارج کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ حکومت کم لاگت کے حل کے ذریعے کر سکتی ہے۔ چونکہ موسم سے متعلق واقعات جیسے سیلاب اور خشک سالی زیادہ بار بار اور شدید ہوتی جارہی ہے، ہمیں ان بحرانوں سے نمٹنے کےلئے بہتر طریقے سے لیس ہونے کی ضرورت ہے۔