کہاں جا کے رکے گا سفینہ

موبائل سیٹوں کے لئے اپنی الگ مارکیٹیں ہیں۔ جہاں یہ کاروبار اپنے پورے عروج پر ہے ۔شام گئے افطاری کے بعد بازار سج جاتے ہیں۔ کوئی موبائل بیچنے کو آیا ہے اور کوئی استعمال شدہ سیٹ لینے کو ہر دکان پر نچھاور ہونے کو تیار ہے ۔ کوئی سیٹ کھلا ہے اور کوئی سیٹ کھلا نہیں ہے ۔لوگ بس اسی تاک میں لگے ہیں ۔پشاور میں چند ایک مقامات اس کام کے لئے بہت مشہو راور مصروف ہیں ۔شہر میں تو کباڑی بازار اور ریلوے پھاٹک ہے اسی طرح صدر اور بورڈ بازار ہیں ۔پھر شہر سے باہر شبقدر تک یہی بزنس جاری ہے ۔نئے موبائلوں کی الگ دکانیں ہیں۔ صدر بازار اور اس کے اندر اور اس کے ملحق مختلف مارکیٹیں ہیں۔وہ دن گئے کہ بیس ہزار میں کوئی موبائل مل جاتا تھا ۔اب تو نیا سیٹ ہے چالیس ہزار سے اوپر کا سفر ہے اور ڈھائی لاکھ کے موبائل فروخت ہو رہے ہیں ۔ کوئی موبائل ذرا سا خراب ہوا تو اس کی مارکیٹ ویلوو اتنا نیچے چلی جاتی ہے کہ بیچے کو جا¶تو اتنا بد دل ہو جا¶ کہ جی چاہے وہی قریب کے نالے میں نفرت کے انداز میں بیزار ہو کر کھینچ کر گندے پانی کے ریلے میں وہی موبائل مار دیا جائے ۔پھرموبائل خراب نہ بھی ہو تو اگر نئے موبائل کا شوق آپ کو بازار تک لے گیا تب بھی آپ کو وہا ںبیچنے اور اپنے موبائل کی موجودہ قیمت جان کر اتنی پشیمانی ہوگی اور بیزاری ہاتھ آئے گی کہ جی چاہے گا وہیں پتھر پہ رکھ کر دوسرے پتھر سے اس کے اتنے ٹکڑے کر دوں کہ پھر دل اگر موبائل کا نام لوں دل کو سینے سے نکال کر باہر پھینک دوں۔ خود آپ کو اپنے خوبصورت سیٹ سے نفرت ہو جائے گی جب آپ کو اس کی قیمت معلوم جائے گی۔مگر بعض پیسے ٹکوں والے لوگ اپنے خوبصورت سیٹ سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ بور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ لگا تار دو سال استعمال کر کے یکسانیت کی آگ میں جلے جاتے ہیں۔ حالانکہ موبائل کی دنیامیں کہا جاتا ہے کہ لاکھوں کا بھی ہو مگر ایک سال ایک سیٹ کے ساتھ دل لگا¶ اور اس کو بیچ کر نیا لے لو۔ان دنوں یہ کام روزگا ر اوپر ہی اوپر جا رہا ہے ۔کیونکہ ڈالر کی اُڑان بھی تو اوپر جا رہی
 ہے ۔ا س وقت سب سے بہتر کاروبار موبائل ہی کی خرید وفروخت ہے ۔دو تین شوکیس بھر لو تو کروڑوں تو کہیں گئے نہیں ۔ویسے دیکھا جائے تو موبائل انسان کی بنیادی ضرورت نہیں ہے ۔اس کی خرید و فروخت عیش و عشرت کے کھاتے میں آتی ہے ۔اسی لئے تو جو معروف دکانیں ہیں وہاں اگر آپ قسطوں میں موبائل خریدنے کو گئے تو وہاں آپ کو موبائل مہنگاملے گا اور پھر دوضمانتیں اور دوسری دستاویزات ساتھ پرونا پڑیں گی ۔ تب جا کر آپ کو موبائل مل پائے گا ۔مگر کسی بھی قسطوں والے شو روم پر پہنچ کر دیکھیں جہاں اور دیگر اشیاءبھی پڑی ہوتی ہیں ۔مگر وہاں جو آئٹم آپ کو فروخت ہوتا ہوا ملے گا وہ موبائل ہو گا۔ جمشید کے شو میں ایک بار نشتر ہال میں بیٹھے تھے تو وہاں وہ سٹیج پرریوڑھیوں کے مول موبائل مفت میں بانٹ رہے تھے ۔کسی کو موبائل سے ہٹ کر کیا مل جاتا اور کسی کو کیا ملتا ۔کسی کو گانے کے دو ایک بول سنانے کو کہاتو اس نے گانا گا کر جب اپنا انعام ڈنر سیٹ لیا تو کہا مجھے یہ نہیں چاہئے مجھے موبائل فون دیا جائے۔ پھر اس کو موبائل فون دیا گیا۔ آج کل
 موبائل فون کااتنا کریز ہے اور پاگل پن ہے کہ یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ہر کس و ناکس گلی کوچے میں گھر میں شادی بیاہ کی گیدرنگ میں رشتہ داروں دوستوں یاروں کو چھوڑ کر موبائل پہ باتیں کر رہا ہے اور ساتھ کھیل رہا ہے ۔بس ایک جادو چلا ہے اور ایک لہر سی چلی ہے کہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہی بلکہ بات آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔جانے ہم کہاں جا کر اپنی منزل تک پہنچیں گے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہم جس رفتار سے جا رہے ہیں نہیں جانتے کہ اپنی منز ل پر پہنچیں گے بھی کہ نہیں ۔ ایسا نہ ہو بیچ راہ کے کھڑے رہ جائیں او رتعلیم حاصل کرنے والے پیچھے آنے والے ہمارے ساتھ سے گزر کر ہم سے آگے نہ نکل جائیں۔مگر ہو تو ایسا ہی رہا ہے ۔ہم پیچھے کے سفر میں ہیں اور دوسری اقوام آگے جا رہی ہیں ۔اس سلسلے میں ہمیں سوچ بچار کرنا ہے ۔مگر ہر آنے والے نئے وقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ اگر یہی حا ل رہا تو کر چکے ہم ترقی۔ بس ہر جانب موبائل کی خریدو فروخت کے مراکز ہوں گے اور ہم ہوں گے اور موبائل خریدے جائیں گے واپس کئے جائیں گے ۔کریڈٹ کارڈوں کی بہار ہوگی اور ہم اندر سے ویران ہو تے جائیں گے۔