مشرق وسطیٰ کا بدلتا ہوا منظر نامہ

حال ہی میں شام اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی طرف پیش رفت کی خبروں نے مشرق وسطیٰ میں بدلتے منظر نامے کو مزید واضح کیا ہے۔ جہاں خطے کے ممالک تنازعات کو ختم کرکے آپس میں قریبی تعلقات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔روس کی ثالثی میں سعودی عرب اور شام کے درمیان تعلقات کی بحالی کی طرف بڑھنا اس عمل کا تسلسل ہے جس کے تحت چین کی ثالثی میں گزشتہ دنوں کئے گئے معاہدے کی بدولت سعودی عرب اور ایران نے نہ صرف سفارتی تعلقات کی بحالی پر آمادگی ظاہر کی ہے بلکہ دونوں ممالک نے  اپنے اختلافات کو ختم کرنے معمول پہلے سے موجود دفاعی معاہدات کی بحالی پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔اس اچانک اور حیران کن اقدام کو وسیع پیمانے پر امریکہ کے مقابلے میں عالمی سطح پرچین کے سافٹ امیج کو تقویت دینے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔گزشتہ ہفتے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کو سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی تعاون کے انتظامات کو فعال کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ منظر عام پرآنے والی تفصیلات کے
 مطابق  اس معاہدے میں باہمی پروپیگنڈہ کو ختم کرنے اور جنگ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک دوسرے کے مفادات پر براہ راست اور بالواسطہ حملے نہ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔  بیجنگ کے ایک اعلیٰ سفارت کار وانگ یی نے اس معاہدے کو ایک بڑی فتح  قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین عالمی مسائل کو حل کرتا رہے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ چین  نے ممالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں چین کی یہ بڑی سفارتی کامیابی اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ یوکرین میں روس کے خلاف اپنی جنگ کو بڑھا رہا ہے اور ایشیا میں بیجنگ کے ساتھ تنازع کی تیاریوں کو مزیدتیز کر رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان حال ہی میں طے پانے والامعاہدہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔واضح رہے امریکی انتظامیہ نے سعودی ایران ڈیل پربظاہر خاموش ردعمل دیا ہے تاہم  انہوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے کردار سے کسی بھی صورت دست بردار نہیں ہوگا۔دوسری جانب امریکی میڈیا  اس پیش رفت پر کچھ زیادہ ہی سیخ پا نظر آتاہے جس میں اس معاہدے کو چین کی فتح اور امریکہ کی مات سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہاجارہاہے کہ اس معاہدے کے ذریعے چین امریکہ پر   بازی لے جا نے میں کامیاب ہوگیاہے جس سے وہ یعنی چین تیل کی دولت سے مالا مال اس خطے میں زیادہ نمایاں کردار ادا کر نے کی پوزیشن میں آگیاہے۔جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے تو گزشتہ جولائی میں جو بائیڈن کے ریاض کے دورے کے بعد سے امریکہ اور سعودی تعلقات میں تناؤ آ گیا ہے۔ تین ماہ بعد اوپیک نے تیل کی قیمتوں کو بلند رکھنے کے لئے مبینہ طور پر سعودی عرب اور روس کے ساتھ مل کر ایک انتظام میں 
 تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کردی تھی جب کہ سعودی عرب یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہ کر کے بھی واشنگٹن کی پریشانی میں اضافے کا باعث بناتھا۔ تیسری جانب چین نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دسمبر میں ریاض میں عرب رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اس سال ایران کے ساتھ خلیج تعاون کونسل کے بیجنگ میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی تجویز پیش کی تھی جس کا نتیجہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ  معاہدے کی صورت میں سامنے آیاہے جس کے بارے میں یہ بات بلا کسی شک وتردد کہی جاسکتی ہے کہ یہ معاہدہ مستقبل میں علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دینے میں کافی حد تک ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے البتہ یہ امید باندھے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی ہرگزفراموش نہیں کرنا چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل اس معاہدے یا اس کے نتیجے میں ہونے والی کسی بھی ممکنہ مثبت پیش رفت کو کسی بھی صورت برادشت کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوں گے۔