نیندیا آ جا رے آجا اکھین میں 

یہ باہر کی قومیں بھی بہت فارغ ہیں۔کچھ روز پہلے نیند کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمارے تو سو کام دھندے ہیں۔ ہم تو روٹی پانی کی فکر ہی سے آزاد نہیں ہوپاتے تو اور کسی جانب کیا توجہ دیں گے۔آئے دن بلکہ ہر دن کوئی نہ کوئی دن منایا جا رہا ہوتا ہے۔چلو کچھ دن کام کے ہوتے ہیں اور کچھ فضول کی ورزش کروانے والی بات ہے۔لیکن چلو ان سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا ہے۔بلکہ ہم کوبھی ان عالمی ایام پر کچھ نہ کچھ آگاہی ہاتھ آتی ہے۔اب نیند کا بھی کیا عالمی دن ہوگا۔مگر اس سے مراد یہ ہے کہ نیند پوری ہو تو صحت بھی حاصل رہتی ہے۔ورنہ تو آدمی بلڈ پریشر اور شوگر کامریض بن جاتا ہے۔یہ کسی نہ کسی چیز کا عالمی دن مناتے رہتے ہیں۔مارچ میں نیند کے عالمی دن کا نمبر ہوتا ہے۔اس میں کیا شک ہے کہ نیند صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔پرسکون نیند سے بندہ کام کاج کرنے میں بہتری محسوس کرتا ہے۔باہر ملکوں میں دوران ملازمت بھی دفاتر میں آدھ گھنٹہ تک سونا ضروری ہوتا ہے۔تاکہ دفتر ی کام زیادہ اچھے طریقے سے انجام پا سکے۔مگر ہمارے ہاں توجاگتے ہوئے بندے بھی غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔رات کو سونے کے لئے بنایا گیا ہے۔مگر ہمارے بعض بھائی بند راتوں کو جاگتے ہیں اور دن نکل آئے تو سو جاتے ہیں۔ پوری فیملی رات کو جاگتی ہے۔کھاتے پیتے ہیں ہنستے کھیلتے ہیں خوب مزے اڑاتے ہیں۔ مگر جب صبح طلوع ہو تی ہے تو یہ غروب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ روزوں کی بات نہیں یہ ان کی عام زندگی کا قصہ ہے۔یہ اس لئے اچھا نہیں کہ دن کی روشنی میں اگر آپ پورا دن سوتے رہے تب بھی آپ کی آنکھوں میں نیند جاگ رہی ہوگی۔ مگر رات کو اندھیرے میں اگر آپ پانچ گھنٹے بھی سو گئے تو آپ جب اٹھیں گے تو اپنے آپ کو فریش محسوس کریں گے کیونکہ رات کے اندھیرے کی اپنی ٹکور ہوتی ہے۔ایک تھپکی سی ہوتی ہے جس سے بندہ کو سکون کااحساس ہو تا ہے۔کیونکہ دن کے سونے او ررات کے سونے میں زمین و آسمان کا فر ق ہے۔اس قسم کی فیملیوں کے ہاں اور ہمارے آپ کے ہاں ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے امریکااور پاکستان کی ٹائمنگ کا فرق ہوتا ہے۔وہاں رات کو چار بجے شام کا کھانا کھایا جاتا ہے۔پھر وہاں ناشتہ سہہ پہر کو جب یہ لوگ اٹھتے ہیں تو کیا جاتا ہے۔یہ تمام حرکات و سکنات صحت کے لئے درست نہیں ہیں۔پوری نیند کرنا صحت کے لئے مفید ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سارا دن سو کر اپنا دماغ خالی کریں اور صحت حاصل کریں۔ اس طرح  تو غیر فطری اندازمیں سونے جاگنے کے اوقات کو الٹ پلٹ کر دینے سے صحت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔بعض لوگ رات کو جلد سونے کے عادی ہیں۔وہ بہت اچھا کرتے ہیں۔عشاء کے بعد سو جاتے ہیں۔صبح تڑکے ہی ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔سحر خیزی اپنی جگہ ایک زبردست عادت ہے۔علامہ اقبال بھی صبح جلدی اٹھنے کے عادی تھے۔ جب لندن گئے تو وہاں کی ہوا تو بدن کی جلد کو کاٹ ڈالتی ہیں۔مگر انھوں نے وہاں بھی صبح کو جلدی اٹھنے کی عادت کو نہ چھوڑا۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر شعر لکھاکہ یہاں کی سردہوا تلوار کی طرح تیز ہے جو جلد کوپھاڑتی ہے۔”زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیرکی تیزی۔نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی۔انگریز بھی قائل ہیں کہ جلدی سو جاؤ اور جلدی اٹھو۔ وہ لوگ بھی قابلِ رحم ہیں اور ان کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے جو نیند کی کمی کاشکارہیں۔اس قسم کے کیسوں میں دوسری طرح کے کیس بھی ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ”آگ لگ جائے آنکھ لگنے کو۔نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی“۔پھر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ”رات کیا سوئے کہ ساری عمر کی نیند اڑ گئی۔خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا“۔ کمپیوٹر اور موبائل کی شرارت بھی کام کرتی ہے۔موبائل لے کر بیٹھ جاؤ یا کمپیوٹر پرباہر ملکوں کے باشندوں سے بات جاری ہو تو پھر رات کیسے بیت گئی اس کا تو پتا ہی نہیں چلتا۔ ویسے بھی انسان کی عمر کا آدھا حصہ تو سو کر گزر جاتا ہے۔پھر باقی میں بھی انسان زیادہ نیند کا شوقین ہو تو دن کو بھی سوئے۔اس طرح تو پل جھل میں عمریا گزر جائے او رمعلوم ہی نہ ہو پائے۔اس تمام بحث کا حاصل یہ بھی ہے کہ اعتدال ہی بہترین پیمانہ ہے سونا ہو یا جاگنا دونوں اعتدال میں رہیں تو زندگی کی گاڑی چلتی رہے گی ورنہ اس کے برعکس معمولات زندگی ضرور متاثر ہونگے اگر نیند حد سے زیادہ ہو تو بھی فائدے کی بجائے نقصان کا باعث ہوگی اور یہی صورتحال جاگنے کی بھی ہے۔