پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ اور لاکھوں زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ”گلوبل واٹر سیکورٹی 2023ء اسسمنٹ‘ نامی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کو پانی کے حوالے سے ”انتہائی غیر محفوظ کیٹیگری“ میں رکھا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو پانی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں اِس تشویشناک حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی قلت والے ممالک میں سے ایک ہے‘ جہاں فی کس پانی کی دستیابی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ موسمیاتی تبدیلی‘ آبادی میں تیزی سے اضافے اور آبی وسائل سے متعلق امور میں بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان کے آبی اثاثے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ملک کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ گزشتہ 80 برس میں پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی میں 70فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے اور چونکہ اِس صورتحال کا بروقت احساس نہیں کیا گیا اِس لئے پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ پانی کی کمی عمومی مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ ازخود حل ہو گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ پانی کی کمی صرف اِس وجہ سے نہیں کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں (ماحولیاتی تبدیلیاں) ہو رہی ہیں بلکہ ایک سماجی و معاشی مسئلہ بھی ہے۔ صاف پانی تک رسائی کی کمی لوگوں کی صحت‘ تعلیم اور ذریعہ معاش کو متاثر کر رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین اور بچے اِس سے نسبتاً زیادہ متاثر ہیں کیونکہ اُنہیں پینے کے پانی تک رسائی کے لئے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے‘ جس میں اُن کا وقت اور کئی جگہوں پر پیسہ بھی لگتا ہے۔ اِسی طرح جب کسی ملک میں رہنے والوں کو پانی نہیں ملتا جو ایک بنیادی ضرورت ہے تو اِس سے تعلیم و روزگار کے متاثر ہونے پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کو پانی کے بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت پانی کے انتظام کو ترجیح دینے اور پانی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے میں مزید تاخیر نہ کرے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے‘ آبپاشی کے نظام کی بہتری اور پانی کے تحفظ کے طریقوں کو توجہ اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو پانی کی آلودگی کو کم کرنے کے لئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں جو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔پاکستان میں پانی کا بحران جس طرح سے ’پیچیدہ شکل و صورت (نوعیت) اختیار کر گیا ہے وہ اِس بات (ایکشن) کا متقاضی ہے کہ ’جامع نقطہ نظر‘ اپنایا جائے۔ پانی کے وسائل کی توسیع‘ تحفظ اور نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے نگران حکومتوں کا وقت زیادہ موزوں ہوتا ہے کیونکہ مختلف سیاسی جماعتوں کی صوبوں میں حکومتوں کی وجہ سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ درپیش آبی بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت‘ سول سوسائٹی اور بالخصوص نجی شعبے کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ پاکستان کے پاس عوام اور زراعت جیسی ضروریات پورا کرنے کے لئے وافر آبی وسائل موجود ہیں۔پانی زندگی کا ایک بہت اہم ذریعہ ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت پینے‘ کھانا پکانے‘ فصلیں اُگانے اور گردوپیش کو صاف رکھنے کے لئے پڑتی ہے لیکن پاکستان جنوبی ایشیائی خطے کا ایک ایسا ملک ہے جسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔پاکستان کے چار بڑے دریا سندھ‘ جہلم‘ چناب اور راوی ہیں جو پینے‘ آبپاشی اور پن بجلی کے لئے پانی فراہم کرتے ہیں تاہم آب و ہوا کی تبدیلی اور ناقص انتظام کی وجہ سے اِن ذرائع سے پانی کی فراہمی کم ہو رہی ہے۔ پانی کی قلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ لوگوں کا مطلب ہے پانی کی زیادہ مانگ۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ شدید موسمی اثرات جیسا کہ طویل خشک سالی اور مون سون کی زیادہ بارشیں بھی آبی عدم تحفظ کو بڑھا رہی ہیں۔ حکومت کو برسات (مون سون سیزن) سے قبل پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے ذریعے پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حکومت کسانوں کو کم پانی استعمال کرنے کے لئے زیادہ مؤثر آبپاشی کے طریقوں کو بھی متعارف کروا سکتی ہے۔ اِسی طرح ایک عام صارف اپنی روزمرہ کی زندگی میں پانی کے استعمال میں احتیاط کر کے تحفظ کی کوششوں میں حکومت کی مدد کر سکتا ہے۔ منہ ہاتھ دھوتے وقت اور دیگر روز مرہ کے امور کی انجام دہی میں اُس وقت ہمارے ہاں پانی کا جو ضیاع کیا جاتا ہے‘ اِس عمومی عادت کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی ایک قیمتی وسیلہ ہے اور ہر ایک کی ضرورت ہے جسے دانشمندی سے استعمال کرنے ہی میں عافیت ہے۔