بی بی سی فارسی نشریات کی بندش

فارسی زبان اور ان زبانوں کو بولنے والے لوگوں کہ جن کی زبانوں میں فارسی زبان کے کئی الفاظ زیر استعمال  ہیں یہ جان کر دکھ ہوا کہ بی بی سی ریڈیو  سے  82 برس سے  جاری فارسی زبان
 کی نشریات بند کر دی گئی  ہیں۔اسی قسم کا دکھ ان کو تب بھی ہوا تھا جب کئی برس پہلے پشاور یونیورسٹی نے فارسی ڈیپارٹمنٹ بند کر دیا تھا کہ جس میں ایم اے فارسی کی کلاسز منعقد ہوا کرتی تھیں، افغانستان،ایران اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک میں فارسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ان ممالک کے ساتھ برطانیہ کے دیرینہ سیاسی اور سماجی تعلقات قائم ہیں۔ فارسی اور اردو زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے،ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اردو زبان میں فارسی کے الفاظ چاشنی کا سبب ہیں اس جملہ معترضہ کے بعد اگر چند دیگر اہم عالمی اور قومی معاملاتِ کا ایک ہلکا سا تذکرہ ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کہتے ہیں محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ایک عرصے سے افغانستان عالمی کرکٹ میں اپنی شناخت کروانے کے لئے کافی تگ و دو کر رہا تھا اور انجام کار اب اس کی کرکٹ ٹیم اس قابل ہو چکی ہے کہ وہ دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیموں کو مات دے رہی ہے اگلے روز شارجہ میں ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو شکست دیکر افغانستان نے پہلی بار ٹی ٹوئنٹی سیریز جیت لی۔روس نے بیلاروس میں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا جو اگلے روز اعلان کیا ہے وہ  دنیا کے امن کے لئے ایک دھچکا ہے۔ اس سے امریکہ اور روس میں کشیدگی بڑھے گی۔تاہم یہ دیکھنا ضروری ہے کہ روس کیوں بیلا روس میں اپنے جوہری ہتھیار رکھنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ روس کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ امریکہ جس طرح یوکرین کے ذریعے روس کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں ملوث ہونے پر مجبور کرچکا ہے اس سے آگے جو مراحل ہیں وہ یقینا روس کو توڑنے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ تب ہی تو روس کے صدر پیوٹن نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی روس کو توڑنا چاہتے ہیں اور روس کا وجود اگر خطرے میں پڑ گیا تو وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس کی بجائے امریکہ عالمی امن کیلئے خطرہ ہے اور اس نے ایسے حالات پیدا کئے کہ روس کو جوہری ہتھیار تیار حالت میں رکھنے پڑ رہے ہیں۔ سال رواں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں وبائی امراض بڑھیں گے۔ یوکرین جنگ پھیلے گی اور مالیاتی سختی سے مالی استحکام  کے خطرات بھی زیادہ ہو جائیں گے۔ اس طرح دیکھا جائے تو دنیا مسائل میں گھری ہوئی ہے اور دوسری طرف عالمی طاقتیں ہیں کہ ایک دوسرے پر ہتھیاروں میں برتری حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اگر ہتھیاروں کی بجائے انسانوں کو درپیش مسائل پر توجہ دی جائے تو زیادہ تر مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔