معاشی مسائل کی وجہ سے جہاں دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں اِس افراتفری کے اثرات ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت بھی ظاہر ہو رہے ہیں اور غذائی اجناس کے مہنگے دام یا عدم دستیابی ہی نہیں بلکہ ادویات کے مہنگے دام اور بعض جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی سے صورتحال زیادہ گھمبیر دکھائی دے رہی ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے درمیان ضروری (جان بچانے والی) ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے تنازع کے باعث کئی اہم ادویات کی حالیہ قلت نے مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے کیونکہ اب خوراک کی طرح زندگی بچانے والی ادویات کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ ادویات کی حالیہ کمی نے سرطان (کینسر)‘ شوگر (ذیابیطس) مرگی (ایپی لیپسی) اور بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) جیسی دائمی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو متاثر کیا ہے جنہیں زندہ رہنے کے لئے کھانے پینے کی طرح ادویات کی بھی مستقل بنیادوں پر ضرورت (حاجت) رہتی ہے۔ادویہ ساز ادارے چاہتے ہیں کہ اُنہیں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار ہونا چاہئے کیونکہ خام مال درآمد کیا جاتا ہے اور ڈالر و روپے کی قدر میں کمی بیشی سے مستقل قیمتیں مقرر نہیں کی جا سکتیں۔ حکومتی ادارہ (ڈریپ) کا مؤقف ہے کہ ادویات کی تیاری پر حقیقی لاگت ایک جائز (کم سے کم) منافع کی صورت وصول کی جائے اور معاشی مشکلات و حالات کے پیش نظر ادویہ ساز ادارے اپنے منافع میں خاطرخواہ کمی لائیں۔ یہ تنازعہ ایک عرصے سے جاری ہے جو اِس بات کو یقینی بنانے کے لئے ’ریگولیٹری اقدامات‘ کی ضرورت کو عیاں کر رہا ہے تاکہ مریضوں اور علاج گاہوں کو درکار تمام ضروری ادویات کی وافر رسائی حاصل ہو۔ پاکستان میں شروع دن سے ادویات کی قیمتوں کا تعین ”پیچیدہ مسئلہ“ رہا ہے کیونکہ اِس شعبے میں حکومت کی اپنی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ مریضوں کے لئے ادویات کو کم قیمت بنانا اور اِس بات کو یقینی بنانا کہ ادویات حسب طلب دستیاب رہیں کے درمیان توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کو نئی ادویات کی تیاری جاری رکھنے کے لئے بھی مناسب ترغیبات و مراعات دینا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ اقدامات و انتظامات کرے جن سے مریضوں اور علاج گاہوں کی ضروریات پوری ہوں اور یہ کام کرتے ہوئے ضروری ادویات کی قیمتوں بھی بڑھنے نہ پائیں (ریگولیٹ رہیں)۔ ادویات کی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے وقتی طور پر سبسڈی دی جا سکتی ہے۔ مزید برآں‘ مستقبل میں اس طرح کے حالات و واقعات کو روکنے کے لئے دواسازی کی صنعت میں شفافیت اور احتساب کا فروغ بھی یکساں ضروری ہے۔ فارماسیوٹیکلز کمپنیوں کو یہ بات یقینی بنانے کے ساتھ جوابدہ بھی ہونا چاہئے کہ اُن کی مصنوعات مریضوں کے لئے دستیاب اور سستی ہیں۔ ادویات کی درآمد کر کے بھی قیمتوں کو اعتدال میں لایا جا سکتا ہے تاہم مجموعی طور پر حکومت کو ضروری ادویات کی قیمتوں کو منظم کرنے‘ دواسازی کی صنعت میں شفافیت و احتساب اور اِس بات کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ جاری بحران کو ’ویک اپ کال‘ کے طور پر دیکھتے ہوئے مریضوں کی صحت‘ علاج اور فلاح و بہبود حکومتی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہئے۔