حکومت نے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں نادار افراد میں مفت آٹے کی تقسیم کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں جہاں آٹے کی تقسیم کا اعلان ہوتا ہے وہاں عوام کا جم غفیر اُمڈ آتا ہے جس میں بزرگ حضرات اور خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ بزرگ افراد روزے کی حالت میں طویل انتظار کی زحمت برداشت کرسکتے ہیں نہ دھکم پیل میں اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہیں۔ اس میں کئی افراد زخمی ہوئے اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے جو عوام تک مفت آٹے اور ضرورت کی دوسری آشیاء کی ترسیل سے متعلق طریقہ کار پر نظرثانی کی متقاضی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ وطن عزیز اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہے۔ افراط زر کی شرح زیادہ ہے اور قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ ان حالات میں اگر کہیں مفت آٹے یا ضرورت کی دوسری آشیا ء کی تقسیم کی خبر آتی ہے تو وہاں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونا ناگزیر ہے۔ بزرگ اور معذور افراد بھی آئیں گے اس لئے کہ ان کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی انتظام نہیں ہے۔ پنشن بھی ہر ایک کو نہیں ملتی اور جن کو ملتی ہے ان میں کئی ایک کے لئے ناکافی ہے۔ اس لئے غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لئے مفت آٹے یا عام استعمال کی کسی بھی چیز کی فراہمی ایک مستحسن قدم ہے لیکن اس مقصد کے لئے ایک جامع منصوبہ ہونا چاہئے۔ پہلے تو لازم ہے کہ یہ امداد مستحق افراد تک پہنچے۔ یہاں امداد کے حصول کے لئے شناختی کارڈ کی موجودگی لازمی قرار دے کر یہ امر یقینی نہیں بنایا جا سکتا کہ مدد صد فیصد مستحقین تک پہنچ گئی ہے۔ شناختی کارڈ کسی شخص کی مالی حیثیت کا تعین نہیں کرتا اور بھوک صرف شناختی کارڈ کے حامل افراد کو نہیں لگتی۔ لیکن شناختی کارڈ کو امداد کے حصول کے لئے لازمی قرار دے کرکسی ایک شخص کو بار بار امدادی اجناس کے وصول کرنے اور دوسروں کی حق تلفی کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ امداد کس کس کو ملی اور کل کتنے لوگ اس سے مستفید ہوئے۔ اس طرح حکومت کا اس مقصد کے لئے مختص کردہ 53 ارب روپے کا صاف اور شفاف حساب رکھنا بھی ممکن ہوگا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ آٹا مفت فراہم کرنے کی بجائے کم قیمت پر دیا جائے۔ اس طرح مدد حاصل کرنے والوں کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن ہمیں کراچی میں دس روپے فی کلو سبزی اور پھل بیچنے والوں کی عوام کے ہاتھوں بنتی درگت کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ وہاں دو رضاکاروں نے دوکانیں سجائیں اور ہر پھل اور سبزی کی قیمت دس روپے مقرر کی۔ جب لوگ وہاں پہنچے تو افراتفری پھیل گئی اور دھینگا مشتی تک نوبت آئی پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اس طرح کی بے ضابطگی سے نمٹنے کے لئے ہمیں قطار بنانے اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی عادت اپناناہوگی۔ یہ ضروری ہے کہ مقرر کی گئی قیمت اتنی بھی کم نہ ہو کہ مطلوبہ اشیا مفت لگیں اور وہی لوگ بھی خریداری کے لئے آئیں جن کو ضرورت نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ضرورت مندوں کو مناسب رقم دی جائے اور وہ خود فیصلہ کریں کہ آٹا خریدنا ہے کہ چینی۔ اس طرح آئے روز آٹے کی تقسیم پر جھگڑے ہونگے نہ غربت کے مارے عوام کی سبکی ہوگی۔امدادی اشیاء کا ضرورت مند افراد میں تقسیم کرنا ایک بہت ہی اچھا عمل ہے تاہم اس سے کسی کی ضرورت وقتی طور پر تو پوری ہو سکے گی لیکن اسے غربت کی دلدل سے نکالنے کے لئے لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت پڑے گی۔ ایک مہینے کا مفت آٹا کافی نہیں ہے۔ بھوک آسانی سے مٹ جاتی ہے غربت نہیں۔ ریاست کو ایسے دور رس اقدامات اٹھانے چاہئے جس سے غربت کا خاتمہ ہو۔ ایک چینی کہاوت کے مصداق ایک بھوکے شخص کو مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا کانٹا دے دو تاکہ اس کی ضرورت وقتی طور پر نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے پوری ہوجائے۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت ہے جو غریبوں کو قرضہ دے کر ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بناتی ہے۔ آج اخوت نے تقریباً دو سو ارب روپے کا قرض حسنہ لاکھوں خاندانوں کو دیا ہے۔ اس قرضے کی رقم یہ لوگ اپنے کاروبار میں لگاتے ہیں اور پھر وہ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ لیا ہوا قرضہ واپس کردیتے ہیں۔ اخوت کی قرضے کی واپسی کی شرح 99 فی صد ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرض لینے والا اس قابل ہوا کہ اسے واپس کرسکے اور عزت کی زندگی گزارے۔ ارباب اختیار کو سرمایہ مفت کا آٹا تقسیم کرنے کے بجائے غربت مٹانے کے لئے استعمال کرنے پر غور کرنا چاہئے۔