رشتوں ناتوں میں عارضی وقفہ آ جاتا ہے۔رشتے کبھی چھوٹتے نہیں ہیں۔ کیونکہ رشتے تو لگائی گئی ایسی گھانٹھیں ہوتی ہیں جو دانتوں کے ساتھ بھی کھولی نہیں جا سکتیں۔ لفظ رشتہ ڈکشنری میں تلاش کریں۔اس کا مطلب دھاگا ہے۔جوذرا کھینچنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔مگر انسانی رشتے وہ دھاگے نہیں جو ٹک سے ٹوٹ جائیں۔ انسان باوجود کوشش کے ان کو توڑنہیں سکتا۔ایٹم کو توڑلے گا اور سورج جیسی آگ نمودار ہو سکتی ہے۔مگر رشتوں کوتوڑنا کسی کے بس میں نہیں۔ مثلاً ایک آدمی غصے میں کہہ دے کہ آج کے بعد تم میرے بیٹے نہیں۔اس کے ساتھ تعلقات بھی نہ رکھے۔ مگر اس طرح کہنے پر رشتہ ٹوٹ نہیں جاتا۔بازار میں کوئی پوچھ لے کہ یہ کون ہے تو اگلاکہے گا کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے۔اس کا دھیان اگر اس طرف چلا بھی جائے کہ اس کو تو والد نے اپنا بیٹا کہنے سے انکار کر دیا ہے۔مگر باپ کے کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ یہ تو فلاں کی اولاد ہے۔خدا کے بنائے رشتوں کو کسی کی کیا ہمت کہ توڑ سکے۔مگر توڑ بھی دے تو بھلا منہ زبانی کہہ دینے سے رشتے ناتے کب ٹوٹتے ہیں اور کیسے ٹوٹ سکتے ہیں۔یہ سچ مچ کے دھاگے تو نہیں کہ ٹک سے توڑدو۔یہ تو پیار کے دھاگے بھی ہوں جن کے درمیان میں کوئی رشتہ نہ وہ تو وہ بھی توڑے نہیں ٹوٹیں۔یہ جنموں کے بندھن ہیں چھوڑے نہیں چھوٹیں۔رشتوں میں بگاڑ آ جاتا ہے اور عارضی تعطل پیدا ہو جاتا ہے۔کبھی کس بات پراور کبھی کس بات پر بندہ بندے سے ناراض ہو جا تاہے۔مگر یہ ناراضی پائیدار نہیں ہوتی۔پھر کبھی زندگی کے موڑ پر بندہ مل ہی جاتا ہے۔بیاہ شادی ہو میت کاموقع ہو یا کوئی اور تقریب ہو آنکھوں سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو دل میں پیار کی اُمنگیں اورجولانیا ں اُمڈآتی ہیں۔جب اپنوں کے ساتھ گلے ملتے ہیں تو خون کی کشش کی وجہ سے دل میں ایک ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔ ”سب نہ کہنے تک کی باتیں تھیں جب آکے مل گئے۔ سارے شکوے مٹ گئے سارا گلا جاتارہا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب لڑائی کے بعد دوبارہ ملنا ہے تو پھر لڑاکیوں جائے۔ انسان کو درکار ہے کہ وہ لڑتے وقت یہ سوچے کہ میں نے اس کے ساتھ دوبارہ ملناہے تو پھر لڑتے بھڑتے وقت وہ ہاتھ ہولارکھے گا۔ رشتوں ناتوں کی بہار تا قیامت قائم رہے گی۔ انسان انسان کی طرف جائے گا پہاڑ پہاڑ کی طرف نہیں جاتا۔ کیونکہ پہاڑ کی ضروریات نہیں ہوتیں۔مگر انسان کو دوسرے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر دوسرے انسان کادروازہ کھڑکھڑاتا ہے۔اگر سب کے ساتھ ایک ایک کرکے رشتہ داری ختم کردی جائے تو انسان دنیا میں اکیلا رہ جائے گا۔پھر اس کو نئے رشتوں کی تلاش ہوگی جن سے وہ اپنی ضرورتیں پوری کروا سکے۔جب نئے رشتے استوار کرنے ہیں تو پرانوں کو جو رشتے سالہا سال سے بنے بنائے ہوتے ہیں کیوں توڑاجائے۔رشتہ داری ہو یا دوست داری ہو اتنی آسانی سے تو نہیں بنا کرتیں۔چلو رشتہ داری تو آپ ملیں نہ ملیں مگر شادی بیاہ اوردوسرے اکٹھ تک تو کم از کم موجود رہتی ہے۔مگر دوستی یاری بھی تو توڑی نہ جائے۔کیونکہ دوست بننا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ دوست تو سالہا سال میں جا کر بنتے ہیں۔مگر دوستوں کو اگر کسی آزمائش میں ڈالا جائے تو دوستی یاری متاثر ضرور ہوتی ہے۔اگرچہ دوست وہ ہے جو مصیبت میں کام آئے۔مگر کوئی اگر مدد نہ کرسکا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے دل میں آپ کے لئے کوئی نرم جذبات موجود نہیں۔ یہاں تو ہر انسان کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔”نہ جانے کون سی مجبوریوں کا قیدی ہو۔وہ ساتھ چھوڑگیا ہے تو بے وفا نہ کہو“۔دوست بہت مشکل سے بنے ہیں۔مگر بعض لوگ بڑی جلدی میں دوستی کارشتہ کسی کارن ٹھاک سے توڑ دیتے ہیں۔یہ ٹھیک کام نہیں ہے۔وہ دوست اگر آج آپ کے کام نہیں آسکاتو امیدرکھیں کہ کل آپ کے کام آجائے گا۔ویسے خدانہ کرے کہ کوئی اتنامجبور ہو کہ اس کو دوسرے کی محتاجی ہو خواہ وہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ مگر یہ دنیاہے یہاں کوئی آدمی مکمل پیدا نہیں ہوا۔ کسی نہ کسی کو کسی نہ کسی چیز کی کمی ستاتی ہیں۔”اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رلاتی ہیں۔ یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ“۔رشتوں ناتوں دوستی یاری کو ہاتھ کے چھالے کی طرح سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے۔”خیالِ خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔رشتے تب ہی چلتے رہتے ہیں جب جب ان کاخیال کیا جائے ان کی طرف دھیان رکھا جائے۔ کسی سے غلطی ہو تو ساتھ ساتھ معاف کرتے رہیں۔اسی طرح تلخ اور کڑوی زندگی میں مٹھاس پیدا ہو سکتی ہے۔