میرا پشاور حسین یا دوں سے عبارت ہے،ان یا دوں میں پشاور کے فرزندوں اور چا ہنے والوں کی خوشبو ہے، میں نے پشاور کو ایک کمرہ کے آئینے میں دیکھا ہے،یہ پرو فیسر خا طر غزنوی کی کتاب ہے جو ممتاز عسکری کے گو شۂ ادب سے مجھے ملی تھی، ایک کمرہ کبھی سید ضیا جعفری کا حجرہ تھا، کبھی رضا ہمدانی کی بیٹھک اور کبھی فارغ بخا ری کی بیٹھک،پھر ایک کمرہ خا طر غز نوی کے گھر کی کھڑ کی سے نظر آنے لگا۔ اب یہ ایک کمرہ ہا ئی سکول نمبر 3میں دکھا ئی دے رہا ہے، ایک کمرہ جہاں سے محسن احسان، احمد فراز، فارغ بخا ری، رضا ہمدانی، مر تضیٰ اختر جعفری، مسعود انور شفقی،طٰہٰ خا ن، روشن نگینوی،اور نذیر تبسم سے لیکر نا صر علی سیّد تک سینکڑوں بڑے اہل قلم نے ادبی دنیا میں نا م پیدا کیا۔ گویا کمرہ پشاور کی ادبی و ثقا فتی تاریخ کا مر قع ہے۔ پشاور کی ثقا فتی تاریخ کا ایک اور مر قع ڈاکٹر سید امجد حسین کی کتاب”یک شہر آرزو“بھی ہے۔ان کی دوسری کتاب ”عالم میں انتخا ب“ بھی ہے۔ مگر میرا پشاور صرف کتابوں تک محدود نہیں۔اس کی یا دیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ ممتاز عسکری کے والد شبقدر چارسدہ سے پشاور آئے، پشاور کی محبت نے ان کو بانہوں میں لیا اور سینے سے لگا یا۔ پھر وہ پشاور کی محبت میں خو د بھی ہلکان ہوئے، اپنی اولا د کو بھی پشاور کی محبت ودیعت کی۔ممتاز عسکری پشاور کے عاشق زار تھے، ڈاکٹر امجد حسین اور ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے ساتھ ان کی محبت بھی پشاور کے حوالے سے تھی۔استاد بشیر کے ساتھ ان کا اُنس بھی خا لص پشاور کا انس تھا، میں نے پرو فیسر شوکت واسطی کو بھی پشاور کے عشق میں بیچ و تاب کھا تے ہوئے دیکھا۔اسلا م آباد جا نے کے بعد ان کو زند گی کی ہر سہو لت میسر تھی سوائے پشاور کے، چنا نچہ وہ پشاور کو سکہ بند
پشوریوں کی طرح یا د کر تے تھے۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی سوا نح عمری کی طرح شوکت واسطی کی سوانح عمری ”کہتا ہوں سچ“ بھی پشاور کی محبت کا سند یسہ ہے، جو تلخ و شیرین یا دوں کا تلخا بہ ہے،میرا پشاور کا بلی چوک سے سینما روڈ جا تے ہوئے دائیں ہاتھ پر واقع حمدیہ پریس کے میر صاحب کی شا ہا نہ نشست و بر خواست اور حکیما نہ گفتگو سے بھی مزین ہے،میر صاحب ایسی شخصیت تھے کہ ان کے بیٹے حامد، زاہد اور عابد بھی ان کے سامنے بات کر تے ہوئے ہچکچا ہٹ محسوس کر تے تھے۔ میرا پشاور پرو فیسر اشرف بخا ری اور قاضی سرور کی محفلوں سے بھی مملو ع ہے۔ دونوں ایسی شخصیات تھیں کہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر عالم سے لیکر طا لب علم تک ہر کوئی سیکھنے کی کو شش کرتا، دونوں کو فارسی اور انگریزی پر یکساں عبور حا صل تھا اردو، پشتو اور ہند کو کے ادبی چٹکلوں سے محفل کو گر ما تے تھے۔ میرے پشاور کے دو ادبی مینار فارغ بخا ری اور رضا ہمدانی تھے، جنہوں نے مل کر پشتو ادب کے کلا سیکی ادب پاروں کو اردو میں منتقل کیا،میرا پشاور مو جو دہ زما نے میں لا وارث ہو تا اگر اس کو ضیا ء الدین، صابر حسین امداد، ڈاکٹر صلا ح الدین، ڈاکٹر عدنان گل، احمد ندیم اعوان اور علی اویس خیال جیسے عاشقان پشاور کی صحبت نصیب نہ ہو تی۔ عرض خیال کی سیرنیز ”کچھ یا دیں کچھ باتیں“ پشاور کی قدیم ثقا فت کے مٹتے ہوئے نقوش کو محفوظ کرنے کی اعلیٰ کا وش ہے۔ تحصیل گور کٹھڑی، محلہ سیٹھیاں، مسلم مینا بازار اور فصیل شہر پر دستاویز ی فلمیں بن چکی ہیں۔پشاور کے ادبی اور ثقا فتی یا د گاروں کو گندھا را ہند کو اکیڈ یمی کے پلیٹ فارم سے محفوظ کر کے اگلی نسل کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ میرا پشاور صرف ما ضی نہیں زما نہ حال بھی ہے مستقبل بھی اور میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ سیٹھی ہاؤس کو منہدم ہونے سے بچا کر محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دیا گیا،میرے لئے خو شی کا مقام یہ بھی ہے کہ میرا پشاور لا وارث نہیں ہوا اس کے وارث مو جود ہیں۔