کرکٹ سے جڑی بھولی بسری یادیں 

یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب پشاور میں انٹر کانٹی نینٹل یا پرل کانٹی ننٹل قسم کے عالمی معیار کے ہوٹل تعمیر نہیں ہوئے تھے۔ بیرونی کرکٹ ٹیمیں جب بھی پشاور کرکٹ کھیلنے آیا کرتیں  تو سروسز ہوٹل پشاور صدر میں  اور یاپھر اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ڈینز ہوٹل میں ان کا قیام ہوتا۔ گو کہ اب  یہ جگہیں بد ل گئی ہیں، سروسز ہوٹل کو  ماضی قریب میں مختلف اوقات میں مختلف دفاتر میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔  اور ڈینز ہوٹل ایک پلازے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔  سروسز گراؤنڈ کے ایک بڑے حصے میں سکواش کمپلیکس تعمیر کر دیا گیا ہے۔ ان جگہوں  سے کرکٹ کی کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں ان میں کئی اچھی بھی ہیں اور کئی تکلیف  دہ بھی۔  اسی سروسزہوٹل میں پشاور کے دورے پر آئی ہوئی ایم سی سی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے رات کے وقت گھس کر پاکستانی امپائر ادریس بیگ کا بازو توڑ ڈالا تھا کیونکہ ان گورے کھلاڑیوں کی نظر میں اس نے پشاور میں ہونے والے میچ میں مبینہ طور پر ان کے خلاف متنازعہ فیصلے دیئے تھے۔ اس واقعے نے پاکستان اور انگلستان کی وزارت خارجہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دنیائے کرکٹ میں اس مطالبے نے زور پکڑنا شروع کر دیا کہ وقت آ گیاہے کہ اب کرکٹ کے میچ سپروائز کرنے کے لئے نیوٹرل امپائرز تعینات کئے جائیں کہ جن کا تعلق آپس میں میچ کھیلنے والے ممالک سے نہ ہو۔ پشاور کے سروسز گراؤنڈ میں کئی بیرونی ممالک کی ٹیموں نے مختلف اوقات میں کئی میچ کھیلے جیسا کہ ایم سی سی  بھارت اور  نیوزی لینڈ۔اسی گراؤنڈ میں معروف کرکٹ کمنٹریٹرز عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی نے بھی کئی کرکٹ میچوں پر رننگ کمنٹری کی جو ریڈیو پاکستان سے براڈکاسٹ  ہوئی۔ ان دنوں  ٹیلی ویژن سے کرکٹ کمنٹری کا چلن ابھی عام نہیں ہوا تھا اور یہ بات ہے 1950 کی سالم دہائی اور 1960 کے ابتدائی تین برس کی۔ جن دنوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس زمانے میں ون ڈے یا  ٹی ٹوئنٹی کے کانسپٹ نے ابھی جنم نہیں لیا تھا اور ٹیسٹ میچ کا دورانیہ چھ دنوں پر اس طرح محیط ہوتا تھا کہ پہلے تین دنوں کے کھیل کے بعد چوتھا دن آ رام کا دن ہوتا اور پھر آرام کے دن کے بعد دو دن یعنی پانچویں اور چھٹے دن میچ کھیلا جاتا۔ اگر دو ممالک میں ٹیسٹ میچوں کی کوئی سیریزکھیلی جا رہی ہوتی تو اس کے دوران چار چار دنوں پر محیط ایک یا دو میچ بھی اس سیریز کے درمیان ایڈجسٹکر لئے جاتے۔ایک عرصے سے پشاور میں کرکٹ کے میچ نئے تعمیر شدہ ارباب نیاز سٹیڈیم میں ہو رہے ہیں اور سروسز گراؤنڈ کو جیسے بھلا دیا گیا ہے۔ پر سروسز گراؤنڈ میں کرکٹ میچ کے انعقاد کا مز ہ ہی کچھ اور تھا۔ تاریخی سروسز گراؤنڈ کو مزید ڈویلپ کیا جا سکتا تھا پاکستان میں اس کا وہی مقام ہے  جو انگلستان میں  لارڈز یا بھارت میں کلکتہ کے اڈین گارڈین کاہے۔ سکواش کمپلیکس اگر بنانا ہی تھا تو اس کے واسطے کسی اور مقام کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ کیا یہ ضروری تھا کہ اس کے لئے سروسز گراؤنڈ جیسے تاریخی کرکٹ گراؤنڈ کا حصہ بخرہ کیا جاتا۔اسی گراؤنڈ پر کرکٹ کے شیدائیوں نے لالہ امرناتھ، ونو منکڈ، کاردار، امتیاز احمد،وقار حسن، فضل محمود، حنیف محمد، سمتھ، علیم الدین خان، محمد محمود حسین، مقصود احمد، ذوالفقار، شجاع الدین، وزیر محمد، مشتاق محمد،پالی امریگر، وجئے منجریکر، رامچند اور پنکج رائے جیسے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔سروسز گرانڈ کی تعمیر بشمول اس کے پیولین pavilion انگلستان میں تعمیر شدہ کرکٹ گراونڈز کی طرز پر تھی۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے تاریخی ورثوں کی حفاظت میں خاطر دلچسپی نہیں رکھتے۔