نسل پرستی: نسلی امتیاز

اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر پھیلنے اور بڑھنے والی نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی مذمت کی ہے اور اِس کے خلاف مشترکہ عالمی جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا ہے اِس سلسلے میں نسل پرستی اور نسلی اِمتیاز کا شکار ہونے والوں کے ساتھ اِظہار یک جہتی کرنے کے لئے ”بین الاقوامی ہفتہ“ بھی منایا جا رہا ہے اور چونکہ یہ معاملہ کافی گھمبیر ہے اِس لئے کوئی ایک دن یا ایک ہفتہ منانے سے نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی حوصلہ شکنی نہیں ہو گی اور نہ ہی روئیے تبدیل ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی کوششیں لائق داد ہیں جس نے نسلی امتیاز کی صورتیں اور اقسام وضع کی ہیں اور اِن سے متعلق ’بین الاقوامی کنونشن‘ وضع کئے ہیں۔ نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی سب سے بدترین شکل غیرملکیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تنازعات سے دوچار ممالک سے متاثرہ لوگ جب نقل مکانی کی زندگی اختیار کرتے ہیں اور اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑتے ہیں تو اُن سے ہمدردی کی بجائے امتیازی سلوک کا اظہار کیا جاتا ہے اور یہ نسلی امتیازات کا مقابلہ کرنے کی عالمی کوششوں کی راہ میں یہ ایک بڑی رکاوٹ اور عالمی نظام کی بڑی خامی ہے۔ ممالک بنیادی طور پر نسل پرستانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے سے صرف یہ دعویٰ کرکے بچ سکتے ہیں کہ ان کا اطلاق صرف غیر شہریوں پر ہوتا ہے جو مختلف نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت سے مغربی ممالک کی امیگریشن پالیسی کا مشاہدہ کرکے اس میں پائے جانے والے دوغلے پن کو عملی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ برطانیہ نے حال ہی میں ایک قانون سازی کی تجویز پیش کی ہے جس کے تحت چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اس کے ساحلوں پر آنے والے پناہ گزینوں کو پناہ حاصل کرنے سے روکا جائے گا جبکہ امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو اُس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے سرحدی گشتی ایجنٹوں کی جانب سے ہیٹی کے پناہ گزینوں کو کوڑے مارنے کا دفاع کیا۔ ایسی مثالیں افسوسناک ہیں۔ اکثریتی سفید فام ممالک ایسے سخت قوانین منظور کر رہے ہیں جن سے سیاہ فام یا بھورے رنگ والے لوگوں کو اپنے ہاں مساوی حقوق کی فراہمی نہ کی جا سکے۔ ایسا کر کے وہ انسانی حقوق کے عالمی قواعد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو پناہ کے متلاشی افراد کے حقوق کا تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن تکنیکی طور پر نسل پرستی کے خاتمے سے متعلق کنونشنز کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں تاہم یہ پالیسیاں واضح طور پر نسل پرستانہ ہیں اور متعلقہ بین الاقوامی کنونشن واضح طور پر اس قسم کے نسل پرستانہ اقدامات سے نمٹنے کے لئے دائرہ کار میں بہت محدود بھی ہیں‘ جو ایک گلوبلائزڈ ماحول پیدا کرتی ہیں۔ گلوبل ساؤتھ سے مغرب تک امیگریشن کو محدود کرنے کی کوششیں آج دنیا میں بین الاقوامی نسل پرستی کی واضح مثال ہیں۔ ان اقدامات کی حمایت میں اکثر دیئے جانے والے دلائل میں کہا جاتا ہے کہ مغربی ممالک پہلے ہی سے بھرے ہوئے ہیں‘ نئے تارکین وطن کو ضم نہیں کیا جا سکتا اور وہ مغرب کی ثقافت کو تبدیل کر رہے ہیں‘ وہ معیشت پر بوجھ ہیں جبکہ جرائم اور دہشت گردی جیسے مسائل بھی مہاجر اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر‘ ان خدشات کا اطلاق سفید فام مغربی ممالک کے درمیان امیگریشن پر نہیں ہوتا‘ اور مغربی ممالک کے درمیان مقابلہ جاری ہے کہ یوکرین سے پناہ گزینوں کو کون زیادہ تعداد میں اپنے ہاں جگہ دے سکتا ہے۔جنگ اور غربت سے فرار ہونے والے شامی‘ ہیٹی یا ہونڈراس کے  تارکین وطن اور یوکرین کے  پناہ گزینوں میں کیا فرق ہے؟ آخر کیوں ایک کا خیر مقدم لیکن دوسرے کو دھتکار ملتی ہے اور اُسے کسی کشتی میں سوار کر کے سمندر میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ نسل پرستی ترقی یافتہ ممالک کی فیصلہ سازی پر حاوی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر جو بائیڈن‘ جو متعصب ٹرمپ کے مبینہ طور پر روادار اور لبرل متبادل ہیں‘ نے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ دریں اثنا دائیں بازو کی نو منتخب حکومتیں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لئے اپنے ساحلوں تک پہنچنے کو مزید مشکل اور خطرناک بنانے کے لئے اقدامات کر رہی ہیں۔ اٹلی کے نئے وزیر اعظم جارجیا میلونی تارکین وطن کی کشتیوں کو اطالوی ساحل کے ساتھ مزید شمال میں لنگر انداز ہونے پر مجبور کر رہے ہیں‘ جس سے اُن تارکین وطن کی مدد کرنے والی تنظیموں (این جی اوز) کے آپریٹنگ اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے جو چاہتی ہیں کہ تارکین وطن کی مدد کریں اور انہیں زیادہ محفوظ طریقے سے تارکین وطن کا سٹیٹس دلائیں۔ نسل پرستی کے خلاف عالمی ردعمل (فریم ورک) کی اصلاح وقت کی ضرورت ہے۔