اس ملک میں کئی ایسے حکمران اور سول سرونٹس گزرے ہیں کہ جن کی دیانتداری فرض شناسی اور میرٹ سے محبت مثالی تھی،ہم آج کے اس کالم میں اسی قسم کی ہی چند شخصیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جن میں ہر فرد اپنی جگہ ایک گوہر نایاب تھا ایک نابغہ تھا اور آج اگر چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو بقول شاعر ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم،ہماری نظر انتخاب سب سے پہلے بانی پاکستان پر پڑتی ہے، نیا نیا پاکستان بنا تھا مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں گھروں کی الاٹمنٹ کا کام کمشنر کراچی ہاشم رضا کے سپرد تھا،جب ایک مہاجر نے قائد اعظم سے کہا کہ وہ کمشنر کو سفارش کر دیں کہ اس کو فوراً گھر آلاٹ کر دیا جائے تو قائد نے اسے کہا کہ وہ سفارش کے خلاف ہیں۔ قائد اعظم گورنر جنرل تھے،کیبنٹ میٹنگ کی تاریخ سے ایک روز قبل ان کے اے ڈی سی نے ان سے دریافت کیا کہ سر کل میٹنگ کے شرکا کے واسطے کافی کا بندوبست کیا جائے یا چائے کا؟ تو بانی پاکستان نے اسے کہا کہ کیا میٹنگ کے شرکا ء گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیں گے؟ اس کے بعد یہ معمول ہو گیا کہ گورنر جنرل ہاؤس میں میٹنگ کے دوران سادہ پانی سے شرکا کی تواضع کی جاتی۔اس قسم کی روایت چین میں ما ؤزے تنگ نے بھی قائم کی تھی ان کی زیر صدارت میٹنگ میں بھی صرف سبز چائے سے شرکاء کی تواضع کی جاتی۔ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی اہلیہ نے کہا کہ وہ ہندستان سے آ ئے ہوئی ایک دنیا کو گھر آلاٹ کر رہے ہیں۔ اپنے لئے بھی وہ ایک گھر آلاٹ کر دیں، تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہندوستان سے آئے ہوئے ہر مہاجر کو پہلے گھر آلاٹ نہیں ہو جاتا وہ اپنے لئے کوئی گھر آلاٹ نہیں کریں گے۔ لیاقت علی خان کی جب رحلت ہوئی تو ان کی اہلیہ کے پاس رہنے کو اپنا گھر نہ تھا۔چنانچہ ان کو اپنے سر پر چھت مہیا کرنے کے واسطے حکومت کو ان کو ہالینڈ میں کچھ عرصہ کیلئے سفیر لگانا پڑا۔ سردار عبد الرب نشتر نے بھی سیاست کو تجارت نہ بنایا اور اپنی ساری ذاتی جائیداد سیاست کی نذر کر دی۔ وہ اس ملک کے کئی کلیدی انتظامی عہدوں پر فائز تھے اگر چاہتے تو اپنے پیچھے ایک بڑا بنک بیلنس اور پراپرٹی چھوڑ جاتے،پر اس قسم کے لوگوں نے سیاست کو اپنے مفادات کی بجائے دوسروں کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔1947 سے لے کر 1958 تک اگر ہم اپنے اس دور کے حکمرانوں کے کردار بودو باش اور رہن سہن پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بے شک جہاں تک ان کی ذاتی دیانتداری کا تعلق ہے وہ مسلم ہے، ان کو اپنی عزت اور وقار کا زیادہ خیال رہتا تھا نہ کہ مال و دھن بنانے کا،لہٰذا ان کی ذات کے ساتھ کوئی بھی سکینڈل منسوب نہ تھا حتی کہ صدر مملکت سکندر مرزا کہ جن کے خلاف بہت کچھ لکھا جا چکا ہے انہوں نے بھی اپنے منصب سے فائدہ اٹھا کر دھن نہ بنایا۔ ان کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد دال ساگ کمانے کیلئے لندن کے ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بطور اسسٹنٹ منیجر کام کرنا پڑا تھا۔ ملک معراج خالد کا شمار بھی ان سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔وہ بھی میرٹ اور قانون کی پاسداری پر مکمل یقین رکھتے تھے ایک چینی کہاوت ہے کہ مچھلی جب خراب ہونے لگتی ہے تواوپر سے گلنااور سڑنا شروع ہوتی ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سب سے اوپر درجہ پر فائز فرد خراب کام کرے گا تو اس کے نیچے بیٹھا ہوا عملہ بھی اسی قسم کے کام شروع کر دے گا، جس دور کا ہم ذکر کر رہے ہیں چونکہ اس میں قائد اعظم،قائد ملت،سردار نشتر اور ان جیسے لیڈر برسر اقتدار تھے تو ان کے اچھے اثرات اُن کے ماتحت عملے پر بھی لازما ًپڑنے تھے۔غلام اسحاق خان نے بھی بطور سول سرونٹ نہایت ہی دیانتدار لیڈروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان کا بھی اس جگہ ذکر کر لینا بہت ضروری ہے، اس ملک کا کونسا ایسا کلیدی انتظامی عہدہ ہو گا کہ جس پر انہوں نے کام نہ کیا تھا، سٹیٹ بنک کے گورنر وزارت خزانہ کے سیکرٹری جنرل سینٹ کے چئیرمین اور پھر صدر پاکستان ان کا ایک ہی بیٹا تھا،اگر وہ چاہتے تو اسے کسی منافع بخش عہدہ پر لگوا سکتے تھے اگر وہ موروثی سیاست کے قائل ہوتے تو اپنے نام اور سیاسی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر کسی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈال کر اس ملک میں موروثی سیاست کا آغاز کرلیتے یا اس کو کسی سیاسی پارٹی میں adjust کر والیتے وہ تو جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس تو وہی چند مرلے آ بائی زمین تھی جو ان کے والد نے ان کو ورثے میں چھوڑی تھی۔ اس میں انہوں نے ایک انچ کااضافہ بھی نہیں کیا تھا۔ان کا شمار ان معدودے چند لیڈروں میں ہوتا ہے کہ جن کا انتظامی اور سیاسی کیرئیر دونوں بے داغ تھے۔ کاش کہ اس ملک کے الیکٹرانک میڈیا پر ان شخصیات کے یوم پیدائش کے دن ہر برس ان کے کردار کو دستاویزی فلموں کے ذریعے اُجا گر کیا جاے تاکہ اس ملک کی نئی نسل کو معلوم ہو سکے کہ اس مٹی نے کیسی کیسی عظیم شخصیات کو جنم دیا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ