متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخابات 

پاکستان جیسے ترقی پذیر  ملک میں جمہوری روایات اور منتخب اداروں کی عزت وتوقیر میں اضافہ کیونکر ممکن ہے اور عوام  کا وہ حصہ جو جمہوری عمل یعنی انتخابات میں شرکت سے گریزاں ہے، آخر ان کا جمہوریت،سیاسی جماعتوں اور منتخب اداروں پر اعتماد کیسے بحال کیاجاسکتاہے۔جب تک ہم اس بنیادی مسئلے کاکوئی قابل عمل حل نہیں ڈھونڈیں گے تب تک قائد اعظم اور علامہ اقبال کے وژن کے مطابق پاکستان کا ایک مستحکم جمہوری ملک بننے کاخواب ادھورا ہی رہے گا ۔سیاست اور جمہوریت نے تمام انسانی معاشروں میں وقت کے ساتھ ساتھ ان معاشروں کی ضروریات اور حالات کے مطابق بتدریج ترقی کی منازل طے کی ہیں ، ہمارے ہاں بھی ایسا ہونا چاہئے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ باتیں ہورہی ہیں کہ انتخابی نظام میں اصلاحات  کی ضرورت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت ہی بہترین راستہ ہے حکومتوں کی تشکیل دینے کا تاہم انتخابی عمل کو زیادہ شفاف اور موثر بنایا جا سکتا ہے، بعض حلقوں  کے مطابق  اس کا آسان حل وطن عزیز میں متناسب نمائندگی کی طرز پر انتخابی اصلاحات کا نفاذ ہوسکتاہے۔ واضح رہے کہ متناسب طرز کاانتخابی نظام دنیا کے اسی سے زائد ممالک میں نہ صرف رائج ہے بلکہ اس کے باعث ان ممالک کا منتخب جمہوری نظام کامیابی سے چل بھی رہاہے۔ متناسب نمائندگی ایک ایسا انتخابی نظام ہے جس میں لوگ پارٹی منشوراورپارٹی لیڈر کو ووٹ دیتے ہیں اوراس طرح جس پارٹی کوجتنے مجموعی ووٹ مل جاتے ہیں وہ ا پنے حاصل کردہ و ووٹوں کے تناسب سے اپنے ممبران قانون ساز اسمبلی میں بھیجتی ہے۔یہاں اس نظام پر ایک اعتراض یہ کیاجاتاہے کہ اس سے پارٹی راہنما  زیادہ خود مختار بن جاتے ہیں جس سے ملک میں جمہوری رویئے پروان چڑھنے کی بجائے مذیدکمزور ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔اس مسئلے کا ایک قابل عمل اور آسان حل یہ ہوسکتاہے کہ الیکشن میں ایک ووٹر ایک ووٹ کے اصول کے مطابق ہر ووٹر ووٹ تو پارٹی ہی کو دے لیکن ہر پارٹی کو ہر حلقے یاکم از کم پچاس فیصد حلقوں پر اپنے امیدواران بھی کھڑے کرنے کاپابند بنایاجاسکتاہے جس سے اگر ایک طرف پول شدہ وووٹوں کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا تودوسری جانب اس سے جہاں ملک کی سیاسی جماعتیں مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ملک گیر جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ جب کہ تیسری جانب اس سے پول شدہ کوئی ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ہوگا۔اس نظام کومزید موثر بنانے،ووٹرز کی تعداد بڑھانے اور پارٹی قائد کی آمریت کا راستہ روکنے کے لئے ہر پارٹی کو مجموعی طورپر حاصل ہونے والے ووٹوں کی شرح سے جتنی نشستیں الاٹ کی جائیں گی یہ نشستیں پارٹی کے ان امیدواران میں تقسیم کی جا سکتی ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے اپنے حلقے میں نمبروائیز سب سے زیادہ ووٹ لئے ہوں گے۔ اس سے نہ صرف پارٹی امیدواران کے درمیان زیادہ سے زیادہ  ووٹ لینے کے لئے مثبت مسابقت کاجذبہ پروان چڑھے گا بلکہ اس سے کسی بھی پارٹی اور مجموعی طورپر ووٹنگ کی مجموعی شرح میں بھی اضافہ ہوگا جب کہ ا س فارمولے سے امیدواران کی نامزدگی کے حوالے سے پارٹی قائد  کے حد سے زیادہ اختیارات کاسد باب بھی ہوسکے گا۔انتخابی عمل وہ اہم ترین مرحلہ ہے جس کے ذریعے جمہوریت پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس سے ان مسائل کا سدباب بھی ممکن ہے جن کا ہم کو وقتاً فوقتاً سامنا رہتا ہے۔