فراموش سانحے




یادش بخیر گزشتہ برس خیبرپختونخوا‘ جنوبی پنجاب‘ بلوچستان اُور سندھ کے کچھ حصے غیرمعمولی بارشوں اور اِس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں سیاحت کا شعبہ نسبتاً زیادہ متاثر ہوا اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب گئی جبکہ دیگر صوبوں میں زرعی معیشت و معاشرت کو نقصانات ہوئے چونکہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے اِس لئے ’سپر فلڈ‘ کہلانے والے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو ملک کی زیادہ تر آبادی بڑی حد تک بھول بھال گئی ہے لیکن جس ایک حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا وہ یہ ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی سے انسانی المیے نے جنم لیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر‘ بے روزگار اور بے یارومددگار پڑے مدد کے منتظر ہیں۔ رواں برس رمضان المبارک کے موقع پر ’سیلاب زدگان کی امداد‘ کے لئے خصوصی مہمات دیکھنے میں نہیں آ رہیں جو اپنی جگہ المیہ ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ جب کسی علاقے میں زراعت سیلابی ریلے کی نذر ہو جاتی ہے تو اُس سے صرف وہی علاقہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ پورا ملک کسی نہ کسی طور متاثر ہوتا ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ بڑھتا ہے۔ حاصل ہونے والی زرعی پیداوار کم ہوتی ہے اور ’غذائی عدم تحفظ‘ کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ موجودہ صورتحال میں دیکھا جا رہا ہے کہ افراط زر کی شرح 47 فیصد تک جا پہنچی ہے اور عوام کی اکثریت کھانے پینے جیسی بنیادی ضروریات خریدنے کے بھی قابل نہیں رہے!
رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں جاری ہونے والی حکومتی رپورٹ کے مطابق ”صوبہ سندھ میں ایک لاکھ افراد آج بھی سیلابی پانی سے گھرے علاقوں میں گزر بسر کر رہے ہیں جہاں ملیریا اور ڈینگی سمیت پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں عام ہیں۔ جھل مگسی میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے سیلاب کے باقی ماندہ کھڑے پانی (جوہروں) میں مچھروں اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی موجودگی خطرناک صورت اختیار کر گئی ہے۔ القصہ مختصر سیلاب متاثرین جہاں جہاں بھی آباد ہیں اُنہیں پینے کے صاف پانی سے لیکر کھانے پینے اور محفوظ پناہ گاہوں کی کمی کا سامنا ہے۔ صوبائی محکمہ برائے ہنگامی حالات (پی ڈی ایم اے) کے مطابق‘ سندھ میں سیلاب سے بے گھر افراد کی آباد کاری تاحال مکمل نہیں ہوئی اور اکثریت مناسب پناہ گاہوں کی تلاش میں ہے جبکہ جن علاقوں میں تعلیمی اداروں کو عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا گیا تھا وہاں تعلیم کا حرج ہو رہا ہے! بتایا گیا ہے کہ ملیر کے خیمہ شہر میں پانچ ہزار سے زیادہ افراد رہتے ہیں جہاں حالات زیادہ اچھے نہیں۔ سیلاب سے دس لاکھ سے زیادہ بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے تاہم سیلاب سے غیرمتاثرہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کی صورتحال بھی زیادہ مثالی نہیں اور پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی نشوونما کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے اور پاکستان میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں متاثر ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق ”زرعی شعبے میں کام کرنے والے پانچ لاکھ مزدور حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن کے لئے روزگار کا بندوبست تاحال نہیں ہو پایا ہے۔“ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ”پاکستان کو سندھ اور دیگر مقامات پر ہونے والی موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے عالمی برادری سے حسب وعدہ اور اعلان مالی امداد کا نصف بھی نہیں ملا جس کی وجہ سے حکومت کے لئے اِن متاثرین کی مدد کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اور دستیاب وسائل سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے ناکافی ہیں۔ سیلاب متاثرین مدد کے منتظر ہیں۔ جب کہ دوسری طرف قومی معاشی مسائل  وجہ سے امدادی سرگرمیاں ہر دن محدود ہو رہی ہیں۔ انسان دوستی  کا تقاضا ہے اور اِس بات کی عمل سے تردید ہونی چاہئے کہ معاشی و سیاسی اُلجھنوں میں سیلاب متاثرین بھول بھال گئے ہیں۔