یہ جنوں پریوں کا قصہ نہیں 

دور کہیں سے ڈھولک بجنے کی آواز آ رہی ہوتی تھی۔ جو آہستہ آہستہ قریب آتی جاتی۔ پھر اتنی کہ رات کے اس سناٹے میں کہ شہرواسی گہری نیند میں ہوتے۔ان گلیوں میں کھڑکیوں سے یہی آواز اندر آنے لگتی۔شہری اٹھ بیٹھتے مگر وہ گھبرائے نہیں ہوتے تھے کہ یہ کیا آواز ہے۔رات کے اس پچھلے پہر بھلا ڈھولک کی آواز کیا معنی رکھتی تھی۔کسی کے چہرے پر تفکرکے آثار تک نمایاں نہیں ہوتے تھے۔ان کو معلوم تھا کہ یہ سہانی آواز روز اس وقت کانوں میں رس انڈیلتی ہے۔پھردور کے ڈھول واقعی سہانے ہوتے۔ آہستہ سے آواز تیز ہوتی ہوئی اتنی قریب آ جاتی کہ گھر کے دروازے پر بجتی رہتی۔یہ کوئی جنوں پریوں کا قصہ نہیں۔ یہ ابھی ابھی گزرے ہوئے دور کی یادگار ہے جو اب نہیں رہی۔ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اس وقت یہ آواز روزوں میں سنا کرتے۔لوگوں کے پاس الارم موجود نہ تھا۔غربت اتنی تھی کہ گھرکے کسی کمرے میں دیوار پر ایک آدھ چھوٹی گھڑی لٹک رہی ہوتی جو پورے گھرانے کے لئے ٹائم دیکھنے کو کافی ہوتی۔بہت ہوا تو کسی کسی کے پاس ٹائم پیس ہوتی۔ مگر اس میں الارم بجنے کا سامان موجودنہ ہوتا۔رات کو کہیں سحری سے رہ نہ جائیں اس کے لئے لڑکے بالے گھروں سے باہر گھومتے گھامتے کھیلتے کھالتے۔جب سحری کا وقت ہوتا تو وہ گھر لوٹتے اور باقی افراد کو بھی نیند سے جگاتے۔اس زمانے میں جرمنی کی بنی ہوئی موٹی سی اور دوالٹی اور چھوٹی کٹوریوں والی گھنٹی کی آواز دینے والی گھڑی تو ضرور ہوتی مگر وہ کسی کسی کے پاس ہوتی۔زیادہ تر لوگ اندازے سے اٹھ جاتے۔ہمیں والدہ مرحومہ رات بارہ بجے اٹھا دیتی اور ہم سحری کرتے۔اب تو رات کے بارہ آنکھوں آنکھوں میں بج جاتے ہیں۔ایسے میں ڈھولک والے اس راہگیر کا دم غنیمت ہوتا۔جو ڈھولک بجاتا ہوا آتا اور سارے محلوں میں گھومتا اور ان کو سحری کے لئے اپنی ڈھولک بجا بجا کر اٹھا دیتا۔اس کی آواز پر کوئی برانہیں مناتا کیونکہ وہ ایک نیک کام کر رہاہوتا۔پھر اس کے بعدپراٹھے بنتے جبکہ کچھ لوگ ہماری طرح تندور سے روٹیاں لاتے بھاری روٹیاں تازہ آٹا اتنا کہ روٹیاں دوسرے دن بھی مزے لے کر کھائی جا سکتیں۔جانے وہ کون سا آٹاہوتا اور جانے وہ کون سا آٹا اب اس موجودہ دور میں ہے کہ اول تو روٹی چبائی نہیں جاتی۔جیسے گتے کی بنی ہو ناقص میٹریل والے اس آٹے کی روٹی تو گھنٹہ بھر کے بعد سخت ہوجاتی ہے۔مگر اس زمانے میں ہم سحری کے لئے شام ہی سے تندور والے کو امی کی دی ہوئی کٹوری میں جاکر گھی دے آتے۔وہ لوگوں کے برتن ایک قطار میں رکھ لیتا۔یوں ہمارے لئے خوبصورت دیدہ زیب اور اتنی دلکش کہ بندہ چاہے کہ یہ روغنی نہ کھاؤں اس لئے کہ ختم ہو جائے گی۔پھر اس کے علاوہ جب روٹی تندور پر نمبر پر ملتی تو اس کے لئے انتظار کی کیفیت میں خلیفہ استاد کو کہتے کہ یار تب تک ایک لواش لگا دو۔وہ لواش بھی پتلی سُوکھی اور مزیدار سی ہم کھڑے کھڑے روکھی ہی کھا لیتے۔شاپروں کا زمانہ نہ تھا کہ روٹی بجائے دسترخوان کے شاپر میں لے آتے۔پھر ملائی کے لئے گھر سے الگ برتن لے جاکر سرِ شام دودھ والے کے پاس نمبر شمار میں قطار میں رکھوا لیتے۔کیا خوبصورت زمانہ تھا۔سڑکوں پر امن و امان کی کیفیت ہوتی۔ کوئی کرکٹ میچ بیچ سڑک نہیں ہورہا ہوتا تھا۔گھر کے ذمہ دار افراد ڈھولک والے کی آواز پراٹھ بیٹھتے مگر وہ جو بے فکرے ہو کر سوئے ہوتے ان کے کانوں کے پاس بڑا ڈھول بھی دم دم بجتا تو وہ نہ اٹھتے۔شورشرابے کا زمانہ نہ تھا او رنہ تو ٹی وی کی جھنکار تھی نہ کسی گھر یا بیٹھک سے گانوں کی یلغا رتھی۔ ٹی وی اگر تھا توگلی میں شاید ایک ہی گھر میں ہوتا جس کی نشریات سہ پہر شروع ہوتیں اور رات بارہ بجے تک بند ہو جاتیں۔اب تو خیر سے ٹی وی بھی رنگین ہے اور ایک نہیں سینکڑوں ٹی وی چینل ہیں۔پھر ایسے ٹی وی کہ بند کردو اور الارم پر رکھ دو۔پھراس کے بعد آپ جس وقت اٹھنا چاہیں اس وقت خود سے آن ہو جائیں گے۔موبائل ہیں جن میں ایک نہیں بیس الارم لگا دو۔ایسا مشینی دور آگیا ہے کہ ہم نے اپنا سب کچھ مشینوں کے حوالے کردیا ہے۔اپنا تن من دھن سب کچھ ان مشینی آلات پر نثار کر دیا ہے۔پھر وہ ڈھولک والا روزوں میں پورے تیس دن گلی محلوں میں گھومتا لوگ اس کی وجہ سے سحری کے لئے اٹھ جاتے۔اب تو سائرن بجتے ہیں‘ پہلے تو صدر میں ایف سی ہیڈکوارٹر کے سامنے گگھو بجتا تھا جس کی آواز شہر کے گلی کوچوں کے گھروں تک آتی تھی۔اس گگھو کی آواز سے بھی لوگ اٹھ کر بیٹھ جاتے۔پھر جب عید کا دن ہوتا او رلوگ ایک دوسرے سے ملتے ملاتے تو اس وقت دن کے پہر وہ ڈھولک والا ڈھولک بجاتا ہوا پایا جاتا۔وہ جہاں جہاں جاتا اس کے ساتھ بچے بھی چمٹے ہوتے تھے۔ وہ اس بار اپنامحنتانہ وصول کرنے کے لئے گھومتا۔ وہ مانگتا نہ تھا مگر لوگ سرِ راہ اس کو کچھ نہ کچھ تھما دیتے۔گلی محلوں میں خواتین کھڑکیوں سے پیسے نیچے پھینک دیتیں۔مگر ڈھولک والے کے ہاتھ نہ رکتے۔ ساتھ ساتھ آنے والے بچے اس کی مدد کرتے اور زمین پر سے پیسے اٹھا کر اس کی ڈھولک پر پڑی ہوئی ٹوپی میں ڈال دیتے۔