(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
میرا ایک دوست ہے باوا ٹھیک ٹھاک آج کل ایک پرائیویٹ سکول کا پرنسپل ہے ہر بات یہ کہتا اور پوچھتا ہے ٹھیک ٹھاک کہ یہی اس کا تکیہ کلام اور طرز ادا ہے ہنس مکھ‘ ملنسار‘ خوش باش آدمی ہے جب بہت دبلا پتلا جواں سال اور اقتصادی طور پر خستہ حال تھا تو تب بھی ٹھیک ٹھاک کہتا اور سنتا تھا اب خوش حال ہے تب بھی اتنا ہی خوش خصال ہے اور ٹھیک ٹھاک کا ورد اس کی زبان پر رہتا ہے۔ آج صبح باوا ٹھیک ٹھاک کا خیال آتے ہی میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہم ٹھیک ٹھاک کا لفظ دن میں کتنی ہی بار استعمال کرتے ہیں خط لکھتے ہیں تو آخر میں لکھتے ہیں باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے حالانکہ کچھ بھی ٹھیک ٹھاک نہیں ہوتا اسی دن بیس روپے سیر آٹا خریدا ہوتا ہے بجلی اور سوئی گیس کا فربہ انداز بل ادا کیا ہوتا ہے مہنگی کتابیں اور کاپیاں خریدی ہوتی ہیں چینی اور گھی کے غائب ہونے کی خوشخبریاں پڑھی جاتی ہیں گرمی سے پنڈا جل رہا ہوتاہے پسینہ شرابور کر رہا ہے بچوں نے تنگ‘ عزیزوں‘ رشتہ داروں نے ضیق میں ڈالا ہوتا ہے بیوی سے لڑائی لڑ چکے ہوتے ہیں مگر لکھتے ہیں سب ٹھیک ٹھاک ہے ٹیلی فون کرتے ہیں یا سنتے ہیں دونوں طرف سے سب ٹھیک ٹھاک کی ضربیں لگتی ہیں ”نورسنگااے“ سب ٹھیک ٹھاک ہم ٹھیک ٹھاک ہیں بھئی کیسے ٹھیک ٹھاک ہو پاؤں میں موچ ہے‘ ذہن میں کھوج ہے دل صدموں سے چور ہے مگر آپ نے ہم نے کہنا یہی ہے ٹھیک ٹھاک ہے‘ ہم کیوں نہیں کہتے لکھتے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک نہیں ہے حال خراب ہے پریشانیاں بے اندازہ ہیں قدم قدم پر مصائب ہیں خط یا ٹیلی فون پر اپنے دکھڑے سنانے کے بعد بھی ہمارا ٹیپ کا بند یا مصرعہ یہ ہوتا ہے باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے‘ ہم گھروں‘ دفتروں‘ سڑکوں بازاروں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں ہماری گفتگو ٹھیک ٹھاک سے شروع ہوتی ہے بیچ میں مصائب و مسائل کا طورمار ہوتا ہے مگر گفتگو کا باب بند اس ٹھیک ٹھاک کے کلیشے پر ہوتا ہے اسے عادت کہہ سکتے ہیں یا مروت اور انداز گفتگو زخموں سے گھائل اور چور آدمی پڑا ہوا ہے بیماری سے نڈھال مریض لیٹا ہوگا پوچھیں گے کیسے ہو کہے گا ٹھیک ٹھاک‘ ہم ٹھیک ٹھاک کا لفظ بغیر سوچے سمجھے استعمال کرتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے سننا چاہتے ہیں‘ ہمارے مرزا غالب کا حال دوسرا تھا ان سے کوئی پوچھتا کیسے ہو تو وہ اپنی اصلی حالت کا کچا چھٹا کھول کر بیان کر دیتے‘ قرض دار ہوں‘ ناقدری کا شکار ہوں‘ وظیفہ بند ہے‘ گرمی نے برا حال کر رکھا ہے‘ آموں کی فصل ابھی نہیں پکی‘ بیماری نے تنگ کر رکھا ہے‘ فاقہ مستی رنگ لا رہی ہے‘ عشق کا روگ الگ سے لپٹا اور چمٹا ہوا ہے اس عالم میں ٹھیک ٹھاک کیسے رہ سکتا ہوں بس بہت خراب ہوں‘اور پوچھو کیا حال ہے‘ ہم دن میں ٹھیک ٹھاک کا لفظ کچھ نہ ہو تو سو دو سو بار استعمال کرتے ہیں مگر شاید ہی ایک دو دفعہ سے زیادہ صحیح معنوں میں استعمال میں لاتے ہم اس قدر ٹھیک ٹھاک زدہ لوگ ہیں کہ مرنے والے کی تعزیت کرنے جاتے ہیں جانتے ہیں کہ دوست کا باپ مرا ہے یا بیٹا مگر اس سے جاتے یا آتے وقت ضرور پوچھیں گے اور کیسے ہو ٹھیک ٹھاک۔