معاشی ترقی و خوشحالی بذریعہ خود اِنحصاری

’اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی)‘ کے حالیہ اجلاس میں ’ریکوڈک تنازعہ‘ کے تصفیے کے لئے مالی مدد منظور کی ہے۔ اِس فیصلے سے بلوچستان حکومت کو وفاقی خزانے (فنانس ڈویژن) سے 6 ارب روپے کی قلیل مدتی فنانسنگ سہولت میسر ہوگی۔ ریکوڈک تصفیہ گزشتہ دور حکومت میں طے ہوا تھا جس سے متعلق اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام خوشخبری (اپنے ٹوئیٹر پیغام (20 مارچ 2022ء) میں کہا تھا کہ ریکوڈک تنازعہ حل کر لیا گیا ہے۔ مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں جو دس برس سے جاری قانونی چارہ جوئی اور مذاکرتی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ریکوڈک کیا ہے اور یکوڈک تنازع کیا ہے؟ حکومت نے کان کن کمپنیوں انٹوفاگسٹا (چلی) اور بیرک گولڈ (کینیڈا) کو مشترکہ طور پر پاکستان میں کان کنی کی اجازت دی۔ ایک معاہدہ طے پایا جو مذکورہ دونوں کمپنیوں کے اشتراک سے قائم ہونے والی ’ٹیتھیان کاپر کمپنی‘ کے ساتھ ہوا اور اِس کے تحت بلوچستان میں تانبے اور سونے کی کانوں کو ترقی دی جانی تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہ معاہدہ بعدازاں قانونی اور سیاسی تنازع بن گیا۔ 1993ء میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ریکوڈک میں کان کنی (قیمتی معدنیات کی تلاش) کا اجازت نامہ (لائسنس) آسٹریلوی کان کن کمپنی ’بی ایچ پی‘ کو جاری کیا۔ ’بی ایچ پی‘ نے تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت کئے اور معدنیات نکالنا شروع ہی کیا تھا اِس معاہدے میں بے قاعدگیاں سامنے آئیں اور ابھی پوری طرح کان کنی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ سال 2011ء میں حکومت بلوچستان نے ’بی ایچ پی‘ کو دی گئی مذکورہ کان کنی کا اجارہ (لیز) منسوخ کر دی‘جواز یہ دیا گیا کہ کمپنی نے حسب معاہدہ سرمایہ کاری نہیں کی۔ ’ٹی سی سی‘ نے سال 2006ء میں ’بی ایچ پی‘ سے ریکوڈک کانوں کے حقوق حاصل کئے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ اِس طرح اُس سے کیا گیا معاہدہ ختم کرنا ’غیر قانونی‘ ہے اور یہ کہ حکومت ِپاکستان یک طرفہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ کمپنی نے پاکستان کے خلاف مقدمہ ’انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی)‘ میں دائر کیا جہاں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اِس لئے ساڑھے آٹھ (8.5) ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔ یہ مقدمہ کئی برس چلا اور سال 2019ء میں ’آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل‘ نے جزوی فیصلہ جاری کیا جس میں ’ٹی سی سی‘ کے مؤقف کو درست قرار دیا گیا اُور پاکستان کو ’5.9 ارب ڈالر‘ ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ پاکستان حکومت نے عالمی عدالت کے اِس فیصلے کو منسوخ کرنے کی کوششیں شروع کیں جو بالآخر کامیاب ہوئیں اور ایک نظرثانی شدہ معاہدہ پھر سے کرنا پڑا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ تنازع کی وجہ سے پاکستان میں کان کنی کی صنعت کو اِس لحاظ سے نقصان پہنچا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے آج بھی ”غیرمحفوظ“ قرار دیتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ’ریکوڈک‘ نامی معدنیات کا ذخیرہ (ڈیپازٹ) تانبے اور سونے جیسی قیمتی دھاتوں پر مشتمل ہے۔ یہ ذخائر دنیا میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے لیکن غیر ترقی یافتہ ذخائر شمار ہوتے ہیں۔ اندازہ (تخمینہ) ہے کہ ریکوڈک میں 10 کروڑ 23 لاکھ ٹن تانبے اور 2 کروڑ اونس سے زیادہ سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ریکوڈک تنازعے کا حل ’ازسرنو معاہدے‘ کی صورت ہوا ہے پاک ایران کی سرحد کے قریب ایک چھوٹے سے دیہی علاقے ’ریکو ڈک‘ میں سونے اور تانبے کے ذخائر ایک عرصے سے نظروں میں ہیں لیکن پاکستان کے پاس معدنیات کے اِن ذخائر سے استفادہ کرنے کے لئے درکار ٹیکنالوجی نہیں۔ اصولاً کسی غیرملکی کمپنی کو تانبے سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی کان کنی کے مدعو کرنا اور اُن کے ساتھ شراکت داری کرنے کی بجائے پاکستان کے فیصلہ ساز اپنے طور پر کان کنی کی مہارت حاصل کرتے جو صرف ’ریکوڈک‘ ہی نہیں بلکہ دیگر علاقوں میں کان کنی کے لئے کارآمد ثابت ہوتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اِس بات کو زیادہ منافع بخش سمجھا گیا کہ ریکوڈک سے نکلنے والا تانبا سونا اور دیگر دھاتوں کا نصف حصہ عالمی سرمایہ کاروں کو دیدیا جائے۔  پاکستان کی معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے(سی پیک)‘ منصوبے سے زیادہ اہم ’ریکوڈک‘ میں موجود قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں۔