بھلا روئے زمین پر ایسی بھی کوئی چارپائی ہوگی جو چھ چارپائیوں جتنی جگہ گھیرتی ہوگی۔وہ چارپائی ہمارے ہاں پشاور میں اور اس کے اطراف کے گاؤں وغیرہ اور کہیں پنجاب میں پائی جاتی ہے‘ ہمارے ہاں حجرے کا ماحول بنانے میں اس بڑے سائز کی چارپائی نے بہت اہم کرداراداکیا ہے۔یہ بھی نہیں کہ چونکہ یہ کنگ سائز کی چارپائی ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں جھول پیدا ہو جاتا ہوگا۔ہر گز بھی نہیں یہ مضبوط بان کی کُھری چارپائی ہر تیسرے چوتھے دن پائنتی کی طرف سے کھینچی جاتی ہے۔ اس پر لوگ اتنا بیٹھتے ہیں کہ اس کا کھردرا پن بیٹھنے والوں کے جسموں کے ٹچ ہونے سے ملائم ہو جاتا ہے۔اتنی کہ اس پر طبلہ کا سا ہاتھ مارو تو تنن تنن کی آواز جگائے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ایک مضمون چارپائی پر بہت مذاق کی باتیں لکھی ہیں فرماتے ہیں کہ اگر باہر اقوام کے سیر بین آئیں تو ہمارے ہاں کی عام سی سنگل بیڈ کے آرام کرنے کی اس چارپائی کو دیکھ کر پہلی نظر میں سمجھیں گے کہ یہ تو ایشیائی طرز کا ایک ساز ہے۔جیسے رباب ہوا یا اس قسم کا ساز جو نسبتاً چوڑا ہوتا ہے۔یہ چارپائیاں ہمارے ہاں پشاور میں اکثر ان گلی محلوں میں پڑی ہوتی ہیں جہاں میدانیاں ہوتی ہیں۔چونکہ حجرہ کوئی گزر گاہ نہیں ہوتا۔ایک بیٹھک نما بڑی سی چاردیواری ہوتی ہے۔اس لئے وہاں ہر کوئی آکر بیٹھ سکتا ہے۔پھر ایک دو تین چار یار اپنی الگ سی منڈلی سجا کر ایک طرف گپ شپ لگا سکتے ہیں۔مگر پشاور کی میدانیاں تو عام گزر گاہ ہوتی ہیں۔جہاں سے مختلف گلیوں کو راستے جاتے ہیں اور کتنے راستے اس میدانی میں آکر کھلتے ہیں۔اس لئے وہاں زمین پر چادریں بچھا کر یا دریاں دراز کر کے اور سنگل بیڈ چارپائیاں ڈال کر بیٹھا نہیں جا سکتا۔کیاپتاکون سی چارپائی رات کے پچھلے پہر کون چرا کر لے جائے۔اس بڑی چارپائی کا فائدہ یہ ہے کہ ٹرک کے وزن کی اس بھاری چارپائی کوکوئی اکیلا بندہ چوری نہیں کر سکتا۔ جب تک کہ اس کے ساتھ آٹھ دس آدمی شریکِ جرم نہ ہوں۔سو وہاں بیچ میدان میں کسی راجہ کے تخت کی طرح یہ چارپائی بچھا دی جاتی ہے۔پھر اس پر گلی محلے کا ہر فرد بیٹھ سکتا ہے۔ وہاں گپ لگائے نہ لگائے مگر کسی کی گپ شپ کو سن سکتا ہے سگریٹ پینے کا جرم کر سکتا ہے۔اس چارپائی کی کھنچی ہوئی ادوین راہ گزرنے والے قریب کے جاننے والوں کو مجبور کرتی ہے کہ اس پربیٹھ کر پشاور کے حجروں کا سا ماحول بنائیں۔ قریب کی بنارس کی قہوہ کی دکان پر سے یا کسی کے گھر سے قہوہ کی بڑی چینک آجائے اور محلے والے قہوہ نوشِ جاں کریں۔ یہ چارپائی کلچر اب تو خیر اس طرح نہیں رہا۔ کیونکہ زمانے کے ترقی کرنے کی نشانی ہے کہ سائنسی چیزیں سکڑتی جاتی ہیں۔اس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔بلکہ کمپیوٹر پہلے سنگل چارپائی کی طرح بڑا ہوا کرتا تھا۔اب حالت یہ ہے کہ وہی کمپیوٹر اب ڈیسک ٹاپ سے اتر کر میز کے بجائے ایک ہاتھ کی ہتھیلی سے استعمال ہوتا ہے۔اس لئے بڑی چارپائی کا کلچر دم توڑ رہا ہے۔ہمارے چوک ناصر خان منڈی بیری کے محلہ مقرب خان میں اب تک یہ بڑی چارپائی پڑی ہے۔ جس پراس علاقے کے مشران لالہ رخیم اور فداجان آ کر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے شائقین کے سنگ آپس میں زندگی کے ہر موضوع پر بات چیت کی محفل سجاتے۔اب بھی کہیں کہیں گلی محلوں میں یہ چارپائیاں پڑی ہیں۔مگر یہ ان چارپائیوں کاآخری دور ہے۔کیونکہ لوگوں کے پاس وقت نہیں رہا جو اب فارغ بیٹھ کر ان پرگپ شپ کی سبیل نکالیں۔اکثر طور پر چارپائیاں اٹھا دی گئی ہیں۔کیونکہ لوگوں کوروٹی پانی کی فکر نے وہ ٹینشن دے رکھی ہے کہ بندہ اب کسی قابل نہیں رہا۔خود اپنے آپ کو اکیلے وقت دینا اس کے بس میں نہیں رہا۔کیونکہ زندگی کے اس ریلے میں خواہشوں کے جھمیلے میں اس کے ذمہ بہت سے کام کرنا ہیں۔جن میں سے دو ایک کام تو روزانہ کرنے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ ایسے میں چارپائی کلچر تو ہے مگر چارپائی پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے کاوقت جو نہیں رہا۔