یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا خاطرخواہ قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود بڑی حد تک پسماندہ ہے‘یہاں برسراقتدار رہنے والی حکومتوں میں سے بعض نے عوام کی امنگوں اور ضروریات کا نہ تو صحیح ادراک کیا اور نہ ایسے طویل المدتی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کیا جن کے ذریعے صوبے کے عوام کیلئے ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھل سکتی تھیں‘ اس تناظر میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا نے صوبے کے عوام کی سماجی و اقتصادی بہبود کیلئے کے پی وژن 2023کے عنوان سے ایک جامع ترقیاتی حکمت عملی کااعلان کیا ہے‘ اس حکمت عملی کا مسودہ تیار کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی شعوری کوشش کی گئی ہے کہ تجاویز اور منصوبے نہ صرف قابل عمل اور قابل حصول ہوں بلکہ معیار اور لاگت کے اعتبار سے بھی پائیداراورکم خرچ ہوں۔ اس وژن کی باقاعدہ رونمائی کی ایک پروقار تقریب گزشتہ دنوں منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق تھے‘ ا س موقع پرجماعت کے دیگر قائدین کے علاوہ سینئرصحافی، کالم نگاران، ریٹائر سرکاری افسران اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی‘اس حکمت عملی کے خدوخال اور شرکاء کے سوالات کے جوابات جماعت کے نائب صوبائی امیر اور سابق سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ خان نے دیئے‘واضح رہے کہ یہ جامع ترقیاتی حکمت عملی چار حصوں پر مشتمل ہے‘ حصہ اول صوبے کی معاشی خوشحالی سے متعلق ہے جس کے تحت معیشت کے اہم شعبوں جیسے خزانہ، توانائی، صنعت، زراعت اور معدنیات سے متعلق بحث کی گئی ہے‘ حصہ دوم بہتر طرز حکمرانی کے تمام اہم مسائل سے متعلق ہے جس میں سرکاری دفاترمیں شفافیت اور احتساب‘مقامی حکومتوں‘ امن و امان‘ سرکاری ٹھیکوں پر اُٹھنے والے اخراجات‘عوامی سہولت مراکز اور بدعنوانی سے پاک حکومت سے متعلق امور کا احاطہ کیا گیا ہے‘ حصہ سوئم سماجی خدمات کے بارے میں ہے جس میں تعلیم‘ صحت‘ بہبودنسواں‘بے گھرافراد‘الکفالہ اورگلی کوچوں میں پھرنے والے بچوں سے متعلق امور شامل ہیں‘ حصہ چہارم دو ابواب پر مشتمل ہے جس میں ایک کا تعلق قدرتی اور انسانی آفات سے نمٹنا جبکہ دوسرے کا تعلق متفرق فلاحی اصلاحات سے ہے جن میں اقلیتوں‘ منشیات کے عادی افراد‘ گداگری کی بیخ کنی جیسے اقدامات شامل ہیں‘اس حکمت عملی کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں ان میں خیبر پختونخوا حکومت کیلئے پانچ سالہ مدت کے دوران ایک واضح اور قابل عمل ترقیاتی لائحہ عمل کی تیاری‘خیبر پختونخوا کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے معروضی حالت کے مطابق قابل تصدیق اہداف کا تعین‘حکومت کو اپنے متعین کردہ ترقیاتی اہداف کے حصول پر مرکوز رکھنے کیلئے عوامی حمایت اور بیداری کا حصول‘اہداف کے عدم حصول یا یکے بعد دیگرے حکومتوں کی ناکام ترقیاتی حکمت عملیوں کی صورت میں حکومت کو ووٹرز کے سامنے جوابدہ ٹھہرانے‘ترقیاتی عمل کے تسلسل کیلئے مستقبل کی حکومتوں کو ایک پائیدار پالیسی فراہم کرناجیسے بنیادی نکات شامل ہیں‘یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیرنظر ترقیاتی حکمت عملی اپنے دائرہ کار میں جامع ہونے کے حوالے سے اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے جو وقت کے تقاضوں اورعوام کی امنگوں کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہے‘اس جامع ترقیاتی حکمت عملی میں معیشت کے جن اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ان میں بجلی‘ تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘صنعت اور مواصلات شامل ہیں‘ یہ شعبہ جات نہ صرف ایک دوسرے پر بلکہ خیبر پختونخوا کے عوام کی مجموعی سماجی اور معاشی حالت پر بھی اہم اثر ڈالتے ہیں‘ ان شعبہ جات میں ہر ایک میں کم از کم دس میگا پراجیکٹس پہلے مرحلے میں تعارفی طور پر شروع کئے جائینگے‘حکومت ایسے میگا پراجیکٹس کیلئے شہری اور دیہی دونوں طرح کے مخصوص جغرافیائی مقامات کی بھی نشاندہی کریگی تاکہ صوبے بھر میں منصفانہ اور یکساں ترقی کویقینی بنایا جا سکے‘چند شہری مراکز میں روایتی ارتکاز کی بجائے اس طرح کے مفید میگا پراجیکٹس کو صوبے کے مختلف علاقوں میں کثیر الجہتی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے گا جس سے ترقی کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور دوررس خوشحالی کے اثرات مرتب ہونگے‘ خیبر پختونخوا کے کچھ پسماندہ حصوں میں بڑھتی ہوئی غربت کی نشاندہی کرنیوالے مختلف مطالعات کی بنیاد پریہ جامع ترقیاتی حکمت عملی صوبے کے ان پسماندہ علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرے گا جو صوبے کے ترقیاتی ایجنڈے میں عرصہ دراز سے بوجوہ نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں۔اس جامع ترقیاتی حکمت عملی میں انحصار کے بجائے خود انحصاری اور خود کفالت کو فروغ دینے کی ایک شعوری کوشش کی گئی ہے کیونکہ ماضی کے انحصار پر مبنی پالیسیوں نے تاریخی طور پر صوبے کے ترقیاتی بجٹ پر منفی اثرات ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس کو مالیاتی رکاوٹوں کا یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسی طرح اس پالیسی دستاویز کی ایک اہم ترجیح سرکاری شعبہ کے اخراجات میں کفایت شعاری اور شفافیت لانا ہے، جس کے تحت ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو کی وصولیوں سے متعلق ریونیو جنریشن سسٹم کو موثر بناتے ہوئے اس میں مساوات لانا قابل ذکرہے۔ اس کے علاوہ خصوصی ترجیح کا ایک اور شعبہ بھی متعارف کیا گیا ہے جس کے تحت اقتصادی سرگرمیوں، پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو بڑھانے کیلئے ایک قابل عمل ماحول کی فراہمی شامل ہے۔ اس میں خصوصی توجہ ان شعبوں پر مرکوز کی گئی ہے جن میں مضبوط ترقی کی صلاحیت موجود ہے اس میں خاص طور پر سی پیک کی تکمیل کے بعد تجارتی اور سرمایہ کاری کا منظر نامہ قابل ذکر ہے۔