سال 2023ء کے آغاز سے بٹ کوائن (کرپٹو کرنسی) کی قدر میں کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اِس نئی اختراع (کرنسی مارکیٹ) کے سرمایہ کار دیوالیہ ہو رہے ہیں اُور ہر روز ہی کوئی نہ کوئی کارپوریٹ اسکینڈلز سننے میں آ رہے ہیں تاہم رواں ہفتے اُس بحران کی زیادہ شدت دیکھنے میں آ رہی ہے جس کا آغاز حالیہ موسم سرما کے وسط سے شروع ہوا اُور کہا جا رہا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے دنیا ’تاریک بحران‘ کی گرفت میں ہے۔ تین ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد‘ بٹ کوائن کی قدر میں کچھ بہتری ہوئی ہے اُور یہ ایک مرتبہ پھر ”9 ماہ“ کی بلند ترین سطح پر خریدا یا فروخت کیا جا رہا ہے لیکن یہ دائمی اضافہ نہیں اُور خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔ کرپٹو کرنسی مارکیٹ کے ایک ڈیلر سے ہوئی بات چیت سے معلوم ہوا کہ بٹ کوائن کی قیمت میں کمی بیشی سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے اُور قیمتوں میں مصنوعی اضافے کے اِس حربے کو استعمال کرنے والے مغربی ممالک ہیں جن کے ہاتھ میں اِس کرپٹو کرنسی کے جملہ معاملات ہیں۔ پاکستان میں چونکہ حکومت بٹ کوائن کو ’آفیشل کرنسی‘ تسلیم نہیں کرتی اِس لئے سرمایہ کار خریدوفروخت میں ہونے والی دھوکہ دہی بھی
خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں اُور یہ امر اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ ’بٹ کوائن‘ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی اکثریت ’کالے دھن‘ کا استعمال کرتی ہے۔بٹ کوائن انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ مقبول ’کرپٹو کرنسی‘ کا اعزاز رکھتی ہے اگرچہ دیگر ’کرپٹو کرنسیاں‘ بھی موجود ہیں لیکن یہی کرنسی توجہات کا مرکز ہے اُور اگر ہم پندرہ سالہ تاریخ دیکھیں تو اِس کی قدر میں انتہائی ڈرامائی اضافہ اُور اُسی تناسب سے انتہائی ڈرامائی کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ کرپٹو اور روایتی فنانس کے سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق مارکیٹوں کو توقع ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجہ سے بٹ کوائن کی مانگ بڑھے گی۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں ’میکرو بیانیہ‘ نمبر ایک ہے۔ ”بٹ کوائن صرف خطرے کی علامت نہیں بلکہ یہ یقینی طور پر خطرات کا مجموعہ بھی ہے۔ بینکنگ کے شعبے میں افراتفری سے لے کر زیادہ و پائیدار منافع کی امیدوں تک دیگر تمام عوامل بھی اِس کا حصہ ہیں لیکن بٹ کوائن سے جڑی سرمایہ کاروں یا مارکیٹ کی اُمیدیں پوری نہیں ہوئیں اُور یہ اُس وقت تک پوری نہیں ہوں گی جب تک ’بٹ کوائن‘ کے ذریعے ادائیگیوں کا نظام وسیع پیمانے پر نافذ نہیں ہو جاتا۔ سردست بٹ کوائن ایک خاص ماحول میں خریدا اُور ایک خاص ماحول میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ امریکی قرض دہندگان سلیکون ویلی بینک اور سگنیچر بینک کے زوال (خسارے) کے بعد روائتی کرنسی میں سرمایہ کاری کی بجائے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھا ہے اُور اِسے مغربی ممالک میں ’محفوظ اثاثہ‘ سمجھا جا رہا ہے لیکن پاکستان کے اپنے مخصوص حالات میں یہ قابل اعتبار نہیں۔ جب ہم بٹ کوائن کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں تو اِس کا مطلب ’بٹ کوائن‘ یا کوئی بھی دوسری کرپٹو کرنسی نہیں ہوتی بلکہ اِس کی
خریدوفروخت کرنے کا کاروبار کرنے والے ہوتے ہیں۔ رواں ہفتے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ اور ہانگ کانگ کی کرپٹو فرم بی سی ٹیکنالوجی گروپ کے کریپٹو ایکسچینج زوڈیا مارکیٹس کے تجزیہ کار کا یہ بیان غور طلب ہے کہ ’بٹ کوائن‘ کامیاب ہونے جا رہا ہے کیونکہ دنیا کے مالیاتی نظام میں بینک ناکام ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بٹ کوائن کے فوائد کی وجہ خوردہ سرمایہ کاروں بنیاد رہی ہے۔ پنشن فنڈز جیسے ادارہ جاتی سرمایہ کار‘ جو اب تک غیر مستحکم اور زیادہ تر غیر منظم بٹ کوائن کو نظرانداز کر رہے ہیں اِس لئے مذکورہ کرپٹو کرنسی کی طویل مدتی بحالی نہیں ہو گی اُور اِس کی لین دین پر شکوک و شبہات حاوی رہیں گے۔ پاکستان کے سرمایہ کاروں کو بٹ کوائن کی حالیہ (قدر میں وقتی) تیزی سے متاثر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر سرمایہ کاری بڑھی ہے تو سرمایہ کاری میں کمی بھی ہوئی ہے اُور اِس کمی کے بارے میں کرنسی ڈیلرز زیادہ کچھ نہیں بتاتے اگرچہ عالمی سطح پر بینکنگ کا شعبہ غیریقینی اُور افراتفری کا شکار ہے اُور لیکویڈیٹی کی کشمکش میں مبتلا ہے لیکن بینکنگ کے منظم شعبے کا مقابلہ کوئی بھی کرپٹو کرنسی نہیں کر سکتی۔