عطیہ خون کی تشہیر

وہ اپنے حساب سے درست فرماتے ہیں۔ بعض تو سلیقے سے اعتراض کردیتے ہیں۔ مگر بعض میرے پیارے دوست اور فیس بک کے فرینڈز تو چھوٹتے منہ کہہ دیتے ہیں کہ تم خون کا عطیہ د ینا اگر نیکی ہے تو اس کی مشہوری کرنا درست نہیں،سوال تو مجھ سے کیا گیا تھا مگر جواب بہت سے دیگر احباب نے دیا کہ یہ وہ نیکی نہیں کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔وہ تو جس کو خیر خیرات دیں تو اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اس لئے اس کو چھپانا چاہئے۔مگر خون کی اس نیکی کی زیادہ سے زیادہ مشہوری کرنا چاہئے۔کیونکہ آج بھی اس باخبرمعاشرے میں لوگ ایک فی صد بھی خون نہیں دیتے۔ایسے میں مریض بچوں کا کیا بنے گا۔ان کو کہاں سے خون چڑھے گا تاکہ وہ بھی ہماری طرح زندگی گزار سکیں۔ کیونکہ جہاں میں خون کا عطیہ دے کر اس خدمت کو فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا کے ایپ پر ڈال دیتا ہوں وہاں سے میرے لئے ڈھیروں کے حساب سے دعائیں وصول ہوتی ہیں اور میرے جسم میں سیروں کے حساب سے خون اور زیادہ ہو جا تا ہے۔جو خون دے کر اس کی مشہوری کرنے پر سوال اُٹھاتے ہیں وہ بھی اپنے ہیں اور اپنے تئیں درست فرماتے ہیں اور چاہتے کہ اس کا صلہ خدا سے مانگو بندے تجھے کیا دیں گے۔یہ بات بھی صحیح ہے مگر اندر بات کچھ اور ہے اور قابلِ غور ہے۔یہ تشہیری مہم نہیں ۔یہ تو دوسروں کو اس طرف راغب کرنے کی کوشش ہے۔پبلک کو دکھلانا مقصود ہوتا ہے کہ دیکھو بھائیو میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل وکرم سے 142 مرتبہ خون کاعطیہ دیا ہے اور اللہ کی کرم نوازی ہے کہ میری صحت پر اس کے برے نقصانات نہیں پڑے اور میں بفضل خدا دوستوں یاروں رشتہ داروں کی دعاؤں کی بدولت زندہ و سلامت گھوم رہاہوں۔ جب میرے ساتھ ایسا ہے تو اگر آپ سال ہی میں سہی صرف ایک بار خون کاعطیہ دے دیں تو اس سے آپ کی صحت کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچنے والا۔بلکہ میری خاتونِ خانہ نے پچاس سے زائد مرتبہ پورے پاکستان میں خون کا عطیہ دے رکھا ہے۔پھرمیرے بیٹے نے بھی پچاس مرتبہ ہی خون دینے کی یہ خدمت سر انجام دے رکھی ہے۔اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا والے ساتھیوں نے مجھے کئی پروگراموں میں مدعو کیا، تو ان کا مقصد بھی کسی کوشہرت دلانا نہیں بلکہ ایک نیک کام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شریک کرناہے، عطیہ خون دینے کے حوالے سے کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لئے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کیلئے ایسے افراد کو عوام کے سامنے لانا بسا اوقات ضروری ہوجاتاہے جو ایک آدھ بار نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ خون کاعطیہ دے چکے ہیں اور ان کی صحت ٹھیک نہیں بلکہ قابل رشک ہوتی ہے۔ میڈیا میں اس کی تشہیر کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ  اس نیک کام کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہئے۔ اس لئے انہوں نے یہ پروگرامات منعقد کئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف آئیں۔یقین کریں خون دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ صحت پر رتی برابر نقصان بھی نہیں پڑتا۔جہاں تک عطیہ خون دینے کے حوالے سے بعض ذہنوں میں غلط فہمیوں کی موجودگی کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں تو یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، کورونا وائرس ویکسین کے حوالے سے کیا کیا باتیں نہیں ہوئیں، پولیو ویکسی نیشن کے سلسلے میں بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں، تو ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موثر ذریعہ میڈیا کے ذریعے تشہیر اور آگہی ہے، عطیہ خون دینے کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کیلئے بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ جس قدر ہواس سلسلے میں غلط فہمیاں دور ہوں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف آئیں‘کیونکہ بہت سارے بچے ہنستی بستی زندگی میں واپس لوٹنے کے لئے عطیہ خون کے منتظر ہیں۔