وقت کا تقاضا

ملک میں الیکشن کب ہوتے ہیں، جلد یا بدیر تاہم اتنا ضرور ہے کہ جمہوریت کے استحکام کیلئے انتخابی عمل ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے تاہم اس کے فوائد سے تب ہی صحیح معنوں میں استفادہ ممکن ہے جب ہم میں سے ہر کوئی ووٹ دینے میں خوب سمجھداری کا مظاہرہ کرے۔آیندہ الیکشن کے لئے یوں تو ملک کے ہر حلقہ انتخاب سے درجنوں کے حساب سے امیدوار خواہشمند ہیں کہ ان کو کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی اپنا ٹکٹ دے دے پر وہ حلقے یا وہاں کے عوام یقینا خوش قسمت ہیں جہاں ایسے امیدوار میدان میں موجود ہوں جو سیاست کو خدمت کے جذبے سے کرتے ہیں اور عوامی بہبود کو اپنی سیاست کامقصد بنا لیتے ہیں۔خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کی ہی آج بات کر لیتے ہیں، یہاں پر سیف اللہ برادران  کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ جس سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں  خدمت ہی کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں انور سیف اللہ خان سلیم سیف اللہ خان اور ہمایوں سیف اللہ خان نے جس منشور پر بھی الیکشن لڑا انہوں نے ایوان اقتدار میں جا کر اسے عملی جامہ پہنایا شنید ہے کہ سر دست ملک کی ہر سیاسی پارٹی ان براداران سے قریبی رابطے میں ہے تاہم اس سیاسی خاندان نے ابھی تک اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔انور سیف اللہ خان کی سیاسی ساکھ تو اس قدر زیادہ رہی ہے کہ ایک مرتبہ انہیں ملک کے وزیر خارجہ کا قلمدان بھی سونپا جا رہا تھا اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وہ خیبرپختونخوا کی گورنرشپ کیلئے بھی امیدوار تھے۔انور سیف اللہ خان نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے اپنی زمہ داریاں بطریق احسن نبھائی ہیں اور یہ اعزاز بھی ان کو جاتا ہے کہ نہایت کم عمر میں انہوں نے اس ملک کے بطور سینیٹر بھی کافی عرصے تک کام کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر انتخابی عمل میں ایسے لوگ شریک ہوں جو اپنے منشور پر عمل درآمد میں مخلص ہوں اور عملی اقدامات پریقین رکھتے ہوں تو ان دنوں ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے،ایسی صورتحال کبھی نہ ہوتی۔ اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا ہوجائے، جہاں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی وقوع پذیر ہورہی ہے‘تازہ ترین پیش رفت کئی حوالوں سے اہم ہے۔ سعودی عرب اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بنتا ہے تو اس کے دور روس اثرات سامنے آئیں گے۔خبریں ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں جلد ہی سعودی عرب کو ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ مل جائیگا‘ اس سے قبل مصر،ایران اورقطر کو یہ حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ اقدام ایران کے ساتھ چین کی ثالثی میں طے پانے والے ایک تاریخی مفاہمتی معاہدے کے  فوراً بعد سامنے آیا ہے‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چین تیزی کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے میں مصروف ہے‘ خاص طورپر مشرق وسطیٰ وہ خطہ ہے جہاں ماضی میں امریکی اثر رسوخ موجود رہا اور اب چین نے یہاں پر جو پیش رفت کی ہے اس نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔چین کے صدر شی نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ مذاکرات اورگفت و شنید سے عالمی تنازعات کو سلجھانا ہے۔جبکہ دوسری طرف امریکہ ممالک کے درمیان تنازعات سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے اور اس کے ہتھیاروں کی فروخت کا بڑا ذریعہ یہ عالمی تنازعات ہیں۔