ڈراؤنا خواب: غذائی بحران کی دستک

پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے ساتھ غذائی بحران کسی ڈراؤنے خواب جیسا ہے کہ آٹے کے حصول کے لئے اموات ہو رہی ہیں۔ ایک ہفتہ قبل چارسدہ میں آٹا وصول کرنے والوں میں بھگدڑ مچنے سے اموات ہوئیں اور اِس کے بعد سے ملک کے کئی دیگر شہروں سے بھی اِسی قسم کی اموات ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ پاکستان میں فلاحی و بہبود کا ایک وسیع نظام موجود ہے جو زکوۃ و صدقات پر منظم و غیرمنظم طریقوں سے چل رہا ہے جس کی نمایاں خصوصیت رہی ہے کہ لوگ گردوپیش میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ فیکٹری مالکان‘ کاروباری افراد‘ مخیر حضرات وغیرہ عام طور پر لوگوں کو خیرات جمع کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن اس سال چیزیں کچھ مختلف ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت صرف داخلی ہی نہیں بلکہ متعدد بیرونی محرکات سے بھی متاثر ہے۔ اسے نہ صرف یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے نقصانات کا سامنا ہے بلکہ اسے سال دوہزاربائیس کے سیلاب سے ہونے والے معاشی نقصانات کی تلافی کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ایک زرعی معیشت و معاشرت کے لئے غذائی عدم تحفظ سے انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے اور لوگ کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے متحمل نہیں ہو پا رہے جس کی وجہ سے مفت آٹے کے حصول کے لئے اپنی  جان تک داؤ پر لگا رہے ہیں۔ یہ صورتحال بہت ہی خوفناک ہے کیونکہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی (افراط زر) جو کہ رواں پینتیس سے چالیس فیصد تک جا پہنچی کی وجہ سے محنت کش دیہاڑی دار اور مستقل آمدنی رکھنے والے طبقات کی قوت خرید پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اِن اور دیگر محرکات کی وجہ سے گزشتہ سال کے مقابلے اِس سال لاکھوں لوگوں مزید خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اور حکومت نے جو مفت آٹے کی فراہمی کی راہ نکالی تھی تو شاید یہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکے کیونکہ طلب (مانگ) اندازوں سے زیادہ ہے۔ سال دوہزارنو میں بھی آٹے کی تقسیم کے دوران اِسی طرح کی بھگدڑ مچنے کے واقعات پیش آئے تھے جب بیس خواتین اور بچوں کی موت ہوئی تھی لیکن آج کی تاریخ میں یہ بات پریشان کن ہے کہ ہماری معیشت ماضی کے مقابلے زیادہ بدتر دور سے گزر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے لوگوں میں نقد رقم کی تقسیم کے لئے باوقار طریقہ کار وضع کرنے میں ہچکچاہٹ اپنی جگہ معمہ ہے‘ خاص طور پر جب ماہرین اقتصادیات اور دیگر ماہرین نے تجویز دی تھی کہ بینظیر انکم سپورٹ (احساس) پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور پہلے سے موجود میکانزم کے ذریعے نقد رقم کی تقسیم کی جائے تو ایسا نہیں کیا گیا اور نتیجہ نظم و ضبط کے بغیر راشن تقسیم کی مہمات ہیں جو وقتی فائدہ کے ساتھ ناقابل تلافی جانی نقصانات کا باعث بن رہی ہیں۔ آج کی تاریخ میں غریبوں اور محنت کش طبقے (مستحقین) کو جس ایک مزید چیز کی ضرورت ہے وہ ہمدردی اور اس مشکل وقت کا اعتراف ہے جسے انہیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ مستحقین اور ضرورت مندوں کو مالی امداد کے ساتھ باوقار رویئے کی بھی ضرورت ہے جو‘ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یعنی ان کی مدد اس انداز میں کی جائے کہ جہاں اشیائے ضرورت ان کو سہولت کے ساتھ ملیں اور ان کی جان بھی خطرے میں نہ پڑے۔مدد کرنا ہر لحاظ سے ایک مستحسن قدم ہے تاہم اس عمل پر سہولت اور محفوظ بنانے میں ہی فائدہ ہے۔جن لوگوں نے مدد کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں جان نقصانات ہوئے تو ان افراد کی نیتوں پر شک نہیں کیا جاسکتا تاہم ان کے طرز عمل اور طریقہ کار میں یقینا بہتری کی گنجائش تھی اگر اس وقت بروقت توجہ دی جاتی تو جان نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔