ان دنوں تو اس شہرِ آرزو کے ہمارے پیارے اپنی عبادات میں مصروف ہیں۔۔ اس لئے شادی بیاہ کی سرگرمیاں ناپید سی ہوگئی ہیں۔ شادی ہال سنسان پڑے ہیں۔مگر موسم کی تابانی اور خوشگواری بدستور قائم ہے۔اپریل بھی انھی بارشوں اور سرد ہواؤں کی نذر ہو گا۔پھر مئی بھی سرد ہوگا۔موسموں کی بے ترتیبی جو کچھ سالوں سے اپنے خفیہ انداز سے ہمارے ماحول میں سرایت کر چکی تھی اب آشکارا ہو چکی ہے۔دھوپ میں بارش کے نظارے تو ہم بچپن سے دیکھتے چلے آئے ہیں۔ مگر ایک ہی چھت تلے ایک فرد کو سردی اور دوسری کو گرمی کا لگنا بہت عجیب واقعہ ہے۔بہت کم لوگوں کو موسم کی یہ چٹکیاں محسوس ہو رہی ہیں۔مگر تین چا رسالوں سے ان تبدیلیوں نے ہمیں ہائی الرٹ کر دیا تھا کہ کچھ ہو رہا ہے اور عجیب ہو رہا ہے۔خیر اس موضوع پر کئی آرٹیکل سامنے آئے تو عوام کو آگاہی حاصل ہوئی۔مگر اب بھی زیادہ تر لوگ ہیں جو باخبر نہیں ہیں او رنہ ہی وہ اس موسمیاتی خطرناک صورتِ حال ہے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔خیر شادی ہالوں کی رونق ان دنوں وہ نہیں۔ سب کچھ سنسان پڑا ہے۔رمضان سے پہلے شادی بیاہ کی تقاریب کی لہر زوروں پر تھی۔یہ لہر نیچے کی سطح سے اٹھتی اور سر سے اونچی چلی جاتی اور دھپاک سے نیچے دوبارہ آ گرتی۔ہمارے ہاں جب بھی کوئی ایسا ایونٹ آ نے والا ہو تو شہریوں کو اپنے بال بچوں کی شادی کی فکر ستاتی ہے۔ پھر دھڑا دھڑ شادیاں ہونے لگتی ہیں۔کہیں ولیمہ ہے اور دن میں دو دو ہیں۔پھر باراتیں ہیں اور وہ بھی شادی ہال میں دو کے حساب سے ایک دن میں منعقد ہو رہی ہیں۔ یہ رواج چل نکلا ہے کہ اب شادیاں شادی ہالوں میں رات کو ہوتی ہیں۔مگر پچھلے دنوں قبلِ از رمضان ہمارے عزیز عالمزیب کے بیٹے کا ولیمہ دوپہر کو ایک مہنگے سے شادی ہال میں تھا۔ بہت دنوں کے بعد دوپہر کو ولیمہ نے بہت لطف دیا تھا۔ جانے کیا ہوا ہے کہ شہریوں نے راتوں کی شادیوں کو ترک کرناشروع کر دیا ہے۔ہوگی اس میں کوئی نہ کوئی حکمتِ عملی مگر دوپہر کا ولیمہ کھا کر دل کو طمانیت کا احساس ضرور ہوا۔اس وقت کھانے سے پہلے اور بعد میں رشتہ داروں کے ساتھ گپ شپ کے لئے کافی وقت ملا۔دراصل آج کل کسی کے پاس وقت نہیں۔یاروں نے اپنی رہائشی بستیاں اتنی دور بسائی ہیں کہ رات کے کسی پروگرام میں شریکِ محفل تو ہو جاتے ہیں مگر کھانے سے فارغ ہو کر جلد از جلد واپس گھرپہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی فاصلے ہیں۔اس لئے رات کو ہر آدمی کوشش کرتا ہے بعد ازطعام واپسی کی راہ لے۔ اس لئے رات کے پروگرام میں عزیزوں کو بارات یا ولیمہ کے موقع پر آپس میں باہم ملاقات کا وقت کم ملتا ہے۔اس لئے دوپہر کے ولیمے نے مزادیاتھا کہ وہا ں اپنے پیاروں سے بات چیت کرنے اور دو کہنے دو سننے کا موقع آسانی سے دستیاب تھا۔اب تو موسم کی خوشگواری تعاون کر رہی ہے۔اندازہ ہے کہ عید جو ں ہی گزرے گی پھر سے نصیبِ جاں ہو شادیوں کی بھر مار شروع ہو جائے گی۔ بلکہ شادیوں کے شیڈول تو ابھی سے طے ہونے لگے ہیں۔ عید کے چوتھے دن سے شادیو ں کا اگلا مرحلہ شروع ہوگا۔پھر لوگوں کو یہ فکر ستائے گی کہ جون جولائی کی گرمی آنے سے پہلے ہی بچوں کی شادیوں سے فراغت حاصل کرلیں۔ویسے اب تو ہمارے ہا ں شادی بیاہ صرف سردی کے موسم کے محتاج ہی نہیں۔بلکہ سخت گرمی میں بھی شادی ہال لبا لب بھرے ہوتے ہیں۔ خوانچے تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں۔ایک ہماہمی ایک رش اور ایک ملن کی لہر سی اٹھتی ہے۔مگر اندازہ ہے کہ یہ گرمی بھی لائٹ سی گزرے گی۔جیسا کہ پچھلے سال مجھے یاد ہے کہ میں نے جون میں سردی کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔ سو اب بھی وہی حال ہے کہ اپریل ہے او ربارشوں نے ماحول کو اتنا مددگا ر بنا دیا ہے کہ اگر دوپہر کو دھوپ کے کارن گرمی کا ہلکا پھلکا سا احساس ہو تو شام کو سردی کے سائے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور اچانک کے اچانک یخ بستہ ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔اس طرح کہ ٹھنڈی ہوا کے لئے جو کھڑکی کھول رکھی تھی وہی اس ٹھنڈی ہوا کے زیادہ ٹھنڈا ہوجانے پر بند کرنا پڑتی ہے۔کیونکہ بندہ آن کے آن میں ٹھٹھرنے لگتا ہے۔جو لوگ شادی ہالوں کے اس وقت بند ہونے سے شادی پریشان ہوں کہ کھانے پینے کے مواقع محدود ہو گئے ہیں ان کو نوید ہو کہ جیسے ہی عید کے تین روز گزریں گے شادی کے نقارے پر چوٹ پڑے گی اور پھر وہی سی کیفیت شروع ہو جائے گی۔شادی ہالوں کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیں گی۔