تھر پارکر کے کوئلے کے ذخائر،سونے کی کان

سندھ میں تھر پارکر کے مقام پر جو کوئلے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں وہ وطن عزیز کے واسطے سونے کی کان سے کم نہیں۔ 9000  مربع کلومیٹرز پر محیط ان ذخائر کی تعداد 175 ارب ٹن ہے جو کہ سعودی عرب اور ایران کے تیل کے ذخائر کو اگر ملا بھی دیا جائے تو ان کے برابر ہیں اور ان سے 1000 میگا واٹ بجلی آئندہ 300 برس تک بنائی جا سکتی ہے۔ ان ذخائر کو اگر دیانتداری اور دور اندیشی اور ٹیکنیکل مہارت کے ساتھ بروئے کار لایا جائے اور یہ بد دیانت افراد کے ہتھے نہ چڑھیں تو یہ اس ملک کو ایک لمبے عرصے تک توانائی کے بحران سے چھڑا سکتے ہیں۔ایک چیز کا البتہ خیال کر کے اس کا تدارک کرنا ہوگا اور وہ ہے کاربن کا اخراج،یہ جو دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے نقصانات ہوئے ہیں۔انکا مورد الزام دنیا کے چند ممالک کو اس لئے ٹھہرایا جا رہا ہے کہ وہ توانئی کے ضمن میں کوئلے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جس سے حد درجہ  کاربن کا اخراج ہوتا ہے اس لئے پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے اقدامات حفظ ماتقدم کے طور پر اٹھانا ہوں گے کہ جن سے عالمی موسم پر منفی اثرات نہ پڑیں۔اب کچھ دیر امور کا تذکرہ ہوجائے  تو دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ وطن عزیز ہر لحاظ سے آگے کی طرف جار ہا تھا اور خطے کے دوسرے ممالک کیلئے ایک مثال کے طور پر موجود تھا،اس میں سے دو ادوار کا تذکرہ ہوجائے،  صدرایوب خان کی توجہ دیہی علاقوں کی غربت کم کرنے پر جبکہ ذوالفقار بھٹو نے شہری علاقوں میں کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی معاشی بہتری کے لئے اقدامات کئے۔ اُس دور میں کم رقبے سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے زرعی شعبے میں تحقیق کا آغاز ہوا اور بالخصوص گندم کی ایسی اقسام  درآمد کی گئیں جن سے زیادہ پیداوار حاصل ہو۔ یہ پودے میکسیکو سے درآمد کئے جاتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں فلپائن سے زیادہ پیداوار دینے والے چاول کے بیج درآمد کئے گئے تھے۔ اِس طرح زرعی شعبے میں ہونے والی بیرون ملک تحقیق سے فائدہ اُٹھایا گیا۔ بعدازاں بیرون ملک سے بیج کی درآمد بھی رک گئی اور اندرون ملک زرعی تحقیق و ترقی کے شعبے کو دی جانے والی مالی امداد میں بھی کم کر دی گئی۔ اُسی دور کی کہانی ہے کہ زرعی سائنسدان نارمن بورلاگ کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی وہ تشریف لائے اور ملک بھر کا دورہ کیا۔ گندم کے ہزاروں کاشتکاروں سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں اور اُن کی سفارش پر زیادہ پیداوار دینے والی گندم کاشت (متعارف) ہوئی۔ نارمن بورگ کو اِنہی کوششوں (دلچسپی) پر اُنہیں ’امن کا نوبل انعام‘ بھی دیا گیا۔ ایوب خان کے دور حکومت میں بلدیاتی اداروں کو مضبوط کیا گیا۔ آج بھی ضرورت بلدیاتی نظام کی فعالیت اور اِسے پھلنے پھولنے کے لئے ایک ایسے سازگار ماحول کی ہے‘ جس میں مقامی ضروریات کا تعین‘ مقامی وسائل کی تقسیم اور مقامی ترقی کے امکانات معلوم کئے جا سکیں۔اس طرح بھٹو دور میں ایک تو ملک کو متفقہ آئین ملا تو ساتھ ہی کچھ ایسے اقدامات بھی کئے گئے تھے جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری نظر آنے لگی تھی۔پھر وہ دور بھی آیا جب ملک میں خود کفالت کی بجائے غیر ملکی قرضوں اور بیرونی امداد کے سہارے ترقی کا پیمانہ اپنایا گیا۔اس وقت ملک کو ایک بار پھر مقامی وسائل سے آگے لے جانے اور غیر ملکی امداد سے چھٹکارہ پانے کی پالیسی کی ضرورت ہے، اس طرف جس قدر جلد توجہ دی جائے بہتر ہے۔