خوابوں کی دنیا

 ہم اس خواب کی دنیا میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں‘بھلے چنگے لوگ ان دنوں ملکی صورتِ حال کی معاشی بدحالی کی وجہ سے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے لگے ہیں۔بازار میں جاکر دل کو خفا دلگیر کر کے واپس آنا پڑتا ہے۔”جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا۔یہ کیاکہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا“۔فراز نے کسی اور صورتِ حال کے لئے یہ لب کشائی تو نہیں۔ اسی قسم کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا ہے۔بس ہم نے صرف اس خالی نقشہ میں رنگ بھرنا ہے اور اپنے ماحول او رطبیعت کے مطابق وموافق اس میں رنگ آمیزی کرنا ہے۔یہ جوہمیں بعض جگہ نظر آتی ہے یہ دنیا صاحبِ حیثیت لوگوں کی دنیا ہے جو  ہر گراں تر چیز کو دیکھ کر وہ چیز سپر مال سے خرید فرما کر گھر لے آئیں گے۔مگر ان کیلئے یہ ایک تازیانہ ہیں جو غربت کے تھپیڑے سہہ رہا ہو۔کبھی نہیں دکھلائیں گے کہ آلو کھاؤ اور آلو کی بھجیا نوشِ جاں کرو دال
 مسور کھاؤ یا چنے کی دال تناول فرمائیں۔بس دکھلائیں گے تو وہ چیزیں جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونگی بلکہ اتنی باہر کہ راہ میں سات سمندروں کا فاصلہ پڑے گا۔مگر ہم اس کے باجود اس خواب کی دنیا کے ماحول سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر کوئی یہ چیزیں نہیں خرید سکے گا تو لازمی وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوگا۔ اب کوئی ٹماٹر اور پیاز نہ خرید سکے تو اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ مہنگے ترین  غذائی اشیاء خرید سکیں۔ جن میں سے عام آدمی ایک بھی خرید نہیں سکے گا۔ اب تو حال یہ ہو چکا ہے کہ بھلے چنگے ہم جیسے لوگ ہاتھ ہولا رکھنے لگنے ہیں۔ایسے میں بازار جائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ خود تو کچھ خریدنہیں سکتے تو دوسرو ں کی مدد کیسے کی جائے، حالانکہ کچھ عرصہ پہلے اس طرح نہ تھا۔ اب تو بہت برے حالات جا رہے ہیں۔دعا ہے کہ   ملک کی معیشت کو استحکام حاصل ہو۔ جو تنخواہیں لے کر گھر گئے وہ بھی پریشان ہیں کہ کیا کریں او رکیا نہ کریں۔ اس بے برکت کرنسی سے کیا خریدیں او رکیا نہ خریدیں۔گھر میں ہر ایک کی اپنی فرمائش ہے کس کس کو پورا کریں گے۔ایک اُداسی ہے جو خریدار کے چہرے پر چھائی ہوئی ہے۔پھر چیزیں جو گراں ہوئی ہیں تو ان میں  بیچنے والوں کی کارستانی بھی شامل ہے  کہ سستے ریٹ پر خریدی گئی اشیاء نئے ریٹ پر بیچ رہے ہیں۔جوس دنبہ کا گوشت اور کولڈ ڈرنک اور کھانے پینے کا کیا کیا ہے۔ مگر جن کو ایک وقت کی بھی میسر نہیں وہ کیا کریں گے۔ وہ اگر اپنے
 جذبات پر کنٹرول کریں گے تودل میں کیا کیا سوچیں گے۔ لیکن ان کے بچے تو سمجھدارنہیں ہیں وہ جودیکھیں گے اور اپنے سامنے بچھے ہوئے دستر خوان پرکچھ اور پائیں گے تو لازم ہے کہ ان کے اندر ایک احساسِ کمتری پیدا ہوگا۔مچھلیاں تکے کباب اور ان پر ٹماٹر کیچ اپ ڈال کر کھائے جا رہے ہیں۔ بتلائے جا رہے ہیں کہ آپ بھی ایسا کریں۔ مگر ہم کیسے ایسا کرسکتے ہیں۔ہوں گے وہ اور معاشرے جہاں یہ سب کچھ آسانی سے ملتا ہوگا۔دوسری طرف یہ بھی ایک ممکنہ راستہ ہے کہ ہم تصنع اور تکلف کی زندگی کو چھوڑ کر سادگی اختیار کریں یہی وہ طرز عمل ہے جس سے مسائل حل ہوتے ہیں اور جو ایک سہل اور آسان طریقہ ہے موجودہ حالات کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کا۔ دیکھا جائے تو ہمارے بہت سارے مسائل خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں ہم نے ان چیزوں کو بھی ضروریات میں شامل کر رکھا ہے جو کسی بھی طرح اس درجے کے لائق نہیں۔