قاری فیض اللہ چترالی 

بے لو ث خد مت کا استعارہ اگر ڈھونڈ نا ہو تو قاری فیض اللہ چترالی کی شخصیت اور خد مات کے آئینے میں نظر آئیگا۔ خدا کا یہ بندہ پاکستان سے لے کر  یو رپ‘ افریقہ‘ روس‘ افغا نستان  اور وسطی ایشیا سے  تک مصیبت زدہ مسلما نوں کی مدد اور خد مت کرتا ہے‘ اس خد مت کا کوئی دفتر نہیں،دفتری اور انتظا می خر چہ نہیں‘مو ٹر وں کا قافلہ نہیں،سیکورٹی اور پرو ٹو کول کا سلسلہ نہیں، خدا کا نا م لیکر اُٹھتا ہے،کروڑوں روپے کی مالیت کے برابر نقد امداد اور امدادی سامان از قسم راشن، کپڑے‘ بسترے، خیمے، ادویات، تعمیراتی سامان‘وغیرہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سسکتی انسا نیت کو ان کے دروازے پر پہنچا کر دے دیتا ہے  اللہ کا شکر ادا کر کے گھر لوٹتا ہے،گھر کیا ہے چھوٹا سا فلیٹ،اُس کا دفتر بھی ہے‘اُٹھنے بیٹھنے کی جگہ بھی،دنیا بھر کے مہمانوں کی میز بانی کے لئے با نہیں کھولے ہوئے حجرہ بھی‘اسلا می تاریخ کے سوا نح نگا روں نے ایسی شخصیات کو درویشی اور سلطا نی کا سنگم قرار دیا ہے، اپر چترال میں مو ڑ کھو کی وادی کے خوبصورت مقام گہت میں پیدا ہونیوالے قاری فیض اللہ چترالی نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کر اچی کا رخ کیا جہاں بنوری ٹاؤن اور فاروقیہ جیسے مقتدر اداروں سے متد اول نصاب اور دورہ حدیث کے بعد دینی علوم کی اعلیٰ سند حا صل کی۔ایک موقع پر آپ کو سرکاری ملا زمت کا شوق ہوا تو سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ مو لانا محمد مستجا ب ؒ نے منع کرتے ہوئے کہا،یہ خیال دل سے نکا ل دوخداتعالیٰ تم سے امت کی اصلا ح اور فلا ح کا بڑا کا م لینے والا ہے اُس وقت آپ ایک مدرسے کے مدرس تھے آپ کے سامنے امت محمد ی ؐ کو درپیش مسا ئل آتے گئے‘ مسا ئل کیساتھ وسائل بھی آ نا شروع ہوئے‘آپ نے ایک ہا تھ سے لیا دوسرے ہا تھ سے تقسیم کیا‘جب کام کا دائرہ  وسیع ہو ا تو آپ کو اندازہ ہو گیا کہ یہی کام تھا جس کی طرف مر شد و مربی نے اشا رہ کیا تھا، دینی اور روحا نی تر بیت کا یہ اثر ہوا کہ آپ نے تو کل کیساتھ فقر اور فقر کے ساتھ کسر نفسی کو اپنا معمول بنایا، بڑے کا موں کا ہلکا ساذکر بھی آپ کے طبع نا زک پر گراں گذر نے لگا‘ حا لانکہ جس دور میں آپ کام کر رہے ہیں اس دور میں یہ چلن عام نہیں، آپ نے دینی تعلیم کا ایک ادارہ  کراچی میں اور دوسرا ادارہ جا معہ اسلا میہ دراسن موڑ کھو چترال میں قائم کیا،دونوں مدارس کو امت کی اصلا ح اور فلا ح کا ذریعہ بنا یا، قاری فیض اللہ چترالی کا کمال یہ ہے کہ ثقہ عالم دین ہونے کے باو جود اپنے آپ کو مو لا نا، خطیب اور دیگر القا ب سے بے نیاز رکھا، آپ نے کبھی لا ؤڈ سپیکر پر ما ئیک کے سامنے آکر تقریر نہیں کی‘یہ آپ کے مزاج میں گُندھی ہو ئی انکساری اور تو اضع کے خلا ف ہے۔ آپ خا مو شی میں کا م کرنے کو پسند کرتے ہیں، اس انکسا ری کا یہ فائدہ ہو اکہ 1990ء میں سوویت یو نین ٹو ٹنے کے بعد وسطی ایشیا ء کی پا نچ مسلمان ریا ستیں آزاد ہو ئیں تو وہاں کا م کرنیکی اجا زت آسا نی سے مل گئی‘آپ نے تا جکستان، ازبکستان، ترکمنستان، کیر غیزیہ اور قزا قستان میں مسا جد کو دوبارہ آباد کر نے، مدارس اور مکا تب کا سلسلہ شروع کرنے اور اسلامی کتب تقسیم کرنے کا کام خو ش اسلو بی سے انجا م دیا۔ 5لا کھ کی تعداد میں قرآن پا ک کے نسخے روسی اور انگریزی تراجم کے ساتھ تقسیم کئے ماسکو  جیسے بڑے شہر میں بھی اسلا می مر کز قائم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہاں مسا جد کو گودام بنا یا گیا تھا‘ مسلمان مرد اور عورتیں اذان کی آواز سننے اور قرآن مجید کی زیارت کرنے کیلئے بے تاب تھے‘ان حالات میں اصلا حی اور فلا حی کا م کے لئے پہلا اصول یہ رکھا گیا کہ کام کی تشہیر نہ ہو خا مو شی سے کا م کیا جا سکے۔ جس کے اثرات چند سا لوں میں ظا ہر ہو نگے اور 4سالوں میں ہی حیرت انگیز اثرات مرتب ہوئے،شام اور تر کی میں مصیبت زدہ مہاجرین کیلئے آپ کی خد مات قابل قدر ہیں‘ پاکستان میں اقراء روضتہ الاطفال، صدیقی ٹرسٹ اور دعوت القرآن ٹرسٹ میں آپ کی شاندار خدمات ہیں۔ چترال اور گلگت بلتستان میں آپ کے رفا ہی کا موں کا سلسلہ جا ری ہے آپ کا ہر کا م بے لوث خدمت کا اعلیٰ نمو نہ ہے۔