رواں سال کپاس کی ملکی پیداوار چار دہائیوں کی کم ترین سطح تک آ گئی ہے۔ چار لاکھ گانٹھوں کی کمی سے اِس نقد آور فصل کے ذریعے زرمبادلہ کی کمائی متاثر ہوگی جس سے ملک میں گہری معاشی بدحالی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں سال کپاس کی فصل میں گزشتہ سال کی 9.34 ملین گانٹھوں کے مقابلے میں سات فیصد جیسی غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے‘ جس کی بنیادی وجہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں موسم گرما کے تباہ کن سیلاب ہیں جہاں یہ صنعتی فصل زیادہ تر اُگائی جاتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایک بیل ’217.72 کلوگرام‘ کے مساوی ہوتی ہے۔ سندھ کو کپاس کی پیداوار میں مجموعی طور پر چوالیس فیصد نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ پنجاب میں چھیالیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بڑی مقدار میں کپاس درآمد کرنا پڑے گی اگرچہ رواں سیزن میں زیادہ تر فصلوں کا نقصان سیلاب کی وجہ سے ہوا لیکن کپاس کی معیشت کو دیگر کئی وجوہات کے باعث مسلسل خسارے کا سامنا ہے۔ سال دوہزارچار پانچ میں کپاس کی فصل گیارہ ملین گانٹھیں تھیں جس کے بعد سے اِس میں بتدریج کمی آ رہی ہے حالانکہ آبادی کے تناسب سے قومی (مقامی ضروریات) ہی کو مدنظر رکھا جائے تو کپاس کی فصل میں ہر سال اضافہ ہونا چاہئے جس کے لئے قابل کاشت رقبے میں بھی اضافہ ناگزیر تھا لیکن کپاس کے قابل کاشت رقبے میں اضافے کی بجائے کمی دیکھی گئی اور اِس کی صرف موسمیاتی تبدیلیاں ہی نہیں بلکہ سیاسی و انتظامی محرکات بھی ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور اِس فصل کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر صرف موسمیاتی تبدیلیاں ہی ذمہ دار ہوتیں تو پاکستان کے ہمسایہ اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی کپاس کی پیداوار کم حاصل ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے۔ خطے کے کئی ممالک میں‘ رواں سال کپاس کی غیرمعمولی طور پر زیادہ بلکہ ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ پاکستان میں سال بہ سال کپاس کی خراب فصل کے کئی عوامل میں کیڑے اور بیماریاں‘ غیر یقینی موسمی حالات اور سب سے بڑھ کر پانی کی کمی ہے۔ کسانوں کو ملنے والا کپاس کا بیج بھی ناقص ہے جس کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار کم ہے اور زیادہ تر کاشتکار روایتی بیج کاشت کرتے ہیں جو کم پیداوار کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کپاس کے زیرکاشت رقبے میں اضافے کے لئے حکومتی مداخلت دیکھنے میں نہیں آ رہی اور نہ کی کپاس کے کاشتکاروں کو ایسی سہولیات اور مراعات حاصل ہیں جس سے وہ ملکی برآمدات و معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ یہ زرعی شعبے کا بالعموم المیہ ہے کہ ہمارے ہاں فی ایکڑ پیداوار کم اور روایتی بیجوں کی بوائی کی جاتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کپاس کے لئے موزوں اور روایتی طور پر استعمال ہونے والے علاقوں میں گنے اور دیگر فصلوں کی کاشت ہو رہی ہے رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات میں تقریبا ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ عالمی طلب میں کمی اور مقامی سطح پر پیداوار کی کمی جیسے محرکات شامل ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے زرعی معیشت و معاشرت کو ترجیح بنانا ہوگا۔ زراعت اگر 60 فیصد سے زیادہ روزگار کا باعث ہے تو اِس کے ذریعے قومی آمدنی کا چالیس فیصد بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایک پریشان حال کاشتکار اور پریشان حال زرعی معیشت کے ساتھ مہنگائی پر قابو پانا عملاً ممکن (آسان) نہیں ہوگا۔